گرفتاریاں ،تشدد ، حکومتیں پارلیمان کی بالادستی کا احترام کرنے میں ناکام : انسانی حقوق کمشن
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) پاکستان کمشن برائے انسانی حقوق نے پاکستان میں 2022ءکے دوران ملک میں جاری سیاسی اور معاشی بے چینی اور اس کے انسانی حقوق کی صورت حال پر ہونے والے اثرات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے نے اپنی سالانہ رپورٹ بعنوان ’انسانی حقوق کی صورت حال 2022‘ میں گزشتہ سال کے دوران سیاسی اور معاشی بے چینی اور اس کے انسانی حقوق کی صورت حال پر مرتب ہونے والے گمبھیر اثرات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ سابقہ اور موجودہ دونوں حکومتیں پارلیمان کی بالادستی کا احترام کرنے میں ناکام رہیں۔ جبکہ قانون سازوں، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان کشمکش نے اداراتی ساکھ کو متاثر کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو سیاسی طور پر نشانہ بنانے کا سلسلہ سال بھر جاری رہا اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے نو آبادیاتی دور کے قوانین کا سہارا لیا گیا۔ درجنوں صحافیوں اور حزب اختلاف کے سیاست دانوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے کچھ نے دوران حراست تشدد کے الزامات عائد کیے۔ سابق وزیراعظم کےخلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی کامیابی کے بعد ملک کے کئی حصوں میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں اجتماع کی آزادی کے حق کو پامال کیا گیا۔ گزشتہ برس کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا۔ ایچ آر سی پی نے خاص طور پربلوچستان میں جبری گمشدی کے واقعات میں اضافے اور سابقہ کیس حل نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے مذہب یا عقیدے کی آزادی کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات ایک لمحہ فکریہ ہیں۔ احمدی برادری خاص طور پر حملوں کی زد میں رہی اور خصوصاً پنجاب میں کئی عبادت گاہوں اور 90سے زائد قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ خواتین کے خلاف تشدد بلا روک ٹوک جاری رہا اور جنسی زیادتی اور اجتماعی جنسی زیادتی کے کم از کم 4226 واقعات پیش آئے۔ جبکہ مجرموں کے لیے سزا کا تناسب مایوس کن حد تک کم رہا۔ علاوہ ازیں، خواجہ سراو¿ں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک، جو اس رپورٹ کا موضوع بھی ہے، میں اضافہ دیکھا گیا۔
انسانی حقوق کمیشن