’ــ’آئین کا مقدمہ ‘‘
ہم سب’’ ریاست ہو گی ماں کے جیسی ‘‘ الفاظ سے بخوبی مانوس ہیں۔ اس سے قطعِ نظرکہ محترم اعتزاز احسن اپنی اس نظم کی شرح کے مشتملات کا دائرہ کتنا پابند یا وسیع رکھتے ہیں،یہ الفاظ کسی بھی ریاست کے آئینی ایمان ویقین پر دلالت کرتے ہیں۔آئین کو چونکہ جُملہ ریاستی قوانین وضوابط کی ماں گردانا جاتا ہے، لہٰذا ریاست کا کردار جب تک مرتب کردہ آئینی اخلاقیات ،حقوق و ذمہ داریوں کے جلو میں رہتا ہے تب تک وہ ماں کا کرداربطریقِ احسن ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جونہی کوئی سرکار آئینی نظم و ضبط سے خود کو ماورا سمجھنے لگتی ہے توہ وہ ریاست کے مادرانہ کردارکی د ھجیاں بکھیرنے کی مرتکب ہوتی ہے۔
’’آئین کا مقدمہ ‘‘ اسی احساس پر مبنی سعید آسی کی روزنامہ نوائے وقت میں تقریباََ ایک سال کے دوران شائع ہونے والی تحریروں کا مجموعہ ہے ۔کہا جاتا ہے کہ انسان کا جس قطعہ زمین یا علاقے سے تعلق ہوتا ہے اُس کی اقدارو روایات کی مہک کا اس کی شخصیت سے اُمڈ آنا فطری اَمر ہے۔ سعید آسی بابا فرید الدین گنجِ شکر ؒ کے آخری مسکن پاکپتن سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا اُن کی شخصیت میں’’ فریدی ‘‘عاجزی ،خود احتسابی، سچائی کی پرکھ، انسانی ہمدردی اوراخلاص کی جھلک اچنبھے کی بات نہیں۔اُن کی نثری و نظمی تحریریں برابر ان اوصاف سے لبریز ہیں۔ زیرِ مطالعہ کتاب ’’آئین کا مقدمہ‘‘ کو موضوعاتی اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ نصف سے زائدکتاب مصنف کے سابقہ دور حکومت کے ’’کارہائے نمایاں‘‘ سے متعلق ذاتی مشاہدہ اور تجزیہ پر مشتمل ہے۔ چند ایک قومی سطح کی مرحوم شخصیات پر لکھی گئی تحریریں ہیں اور کچھ متفرقات ہیں۔ پاکستان کے صفحہ اول کے حکومتی اور غیر حکومتی پندرہ راہنمائوں کی تصاویر پر مبنی سرورق کے ساتھ تین سو نو صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مصنف کی منفرد کاوش کہا جا سکتا ہے۔ منفرد اس لیے کہ کسی بھی متنوع موضوع پر لکھی گئی کتاب میں آئینی کجروی کو اس تنوع کے ساتھ موضوعِ بحث نہیں بنایا گیا۔ مصنف نے سیاسی حالات و واقعات کو آئینی چھاننی میں ڈال کر بھرپور چھاننے کی ’’سعی ِ سعید ‘‘کی ہے۔ اُن کے حرف حرف سے حکومتِ وقت کی کج رویوں سے نفرت اور شدید بیزاری کا واشگاف احساس مترشح ہوتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو ، جس شخص نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ہی عدالتوں میں آئینی تشریح و اطلاق کے مشاہدے سے کیا ہو، اسکی حکومتِ وقت کے غیر آئینی چلن سے بیزاری بلاشبہ ذاتی سے زیادہ حوالہ جاتی ٹھہرتی ہے۔ دورانِ مطالعہ قاری کو شک گزرتا ہے کہ مصنف شایدحکومت کی کسی مخالف جماعت سے وابستگی کی بنیاد پر اس پر قلمی نشترزنی کر رہا ہے۔ لیکن جب قاری حکومتِ وقت کی سب سے بڑی مخالف سیاسی جماعت کے بانی راہنما کے بارے درج ذیل سطور پر پہنچتا ہے تو اسے اپنی اس بد گمانی پر جلد تاسف ہونے لگتا ہے۔ ’’میاںنواز شریف کے یہ کہہ کر ڈنکے بجائے جاتے ہیںکہ انہوں نے امریکی صدر کلنٹن کی پاکستان کی اقتصادی امداد بند کرنے کی دھمکی کی بھی پرواہ نہ کی اور دھماکہ نہ کرنے کے عوض اُن کی پاکستان کوپانچ ارب ڈالر امداد کی پیشکش بھی ٹھکرا دی تھی۔ مگر حضور !اُنہیں اس راہ پر کون لایا۔ وہ تو اُس وقت شش و پنچ میں پڑے تھے۔ کابینہ کے اجلاس میں گومگو کاشکار تھے۔ قومی اخبارات کے ایڈیٹروں کے ساتھ نشست میں انہیں امامِ صحافت مجید نظامی کی اس للکار کے آگے پسپائی اختیار کرنا پڑی کہ آپ ایٹمی دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دیگی۔ میں آپ کا دھماکہ کردوں گا‘‘۔
مصنف نے مجید نظامی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر اجمل نیازی کی شخصیات سے متعلق خوبصورت پیرائے میں اپنا اظہاررائے کیا ہے۔’’اپنوں کی مہربانیوں کے ڈسے‘‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جس بے بسی میں زندگی گزاری اُس کا تذکرہ مصنف نے مرحوم کی وصیّت میں یوں کیا ہے، ’’ جب میں فوت ہو جائوں تو میرے تمغوں کو میری قبر کے سرہانے رکھ دینا‘‘ بے قدری کے احساس سے چُور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے آخری خط کے چند الفاظ یوں نقل کیے ہیں، ’’ وزیراعظم اور پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے وزراء اعلیٰ میری وفات کی’’ گڈ نیوز‘‘ سننے کے منتظر ہیں۔ ایسے میں میرے شہر اور صوبے کے وزیراعلیٰ نے میری مزاج پُرسی کی۔ میں اُن کا تہہ دل سے مشکور ہوں‘‘۔ اس مراسلے کے سات روز بعدوہ لحد میں اُتر گئے۔ اُنکی نمازِ جنازہ میں شرکت کی توفیق نہ وزیراعظم کو ہوئی نہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے وزرائے اعلیٰ کو ‘‘۔’’ یومِ تکبیر اور ہمارے ہیروز ‘‘کے عنوان تلے تحریر میں میاں نواز شریف کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ معاندانہ روّیے کی بات ان الفاظ میں کی گئی ہے۔ ’’میاں نواز شریف پھر بھی اتنے تُھڑ دلے ثابت ہوئے کہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا کریڈٹ اسکے حقیقی خالق ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو دینے کے روادار نہ ہوئے۔ اُن میں مین میخ نکالتے ہوئے ڈاکٹر ثمر مندمبارک کو اُن کے مدِ مقابل لے آئے۔ وہ تو اٹھائیس مئی کو ایٹمی دھماکے کے لئے انہیںچاغی لے جانے پر بھی تیار نہ تھے۔ اس پر بھی محترم مجید نظامی نے ہی انہیںمجبور کیا‘‘۔
کتاب کا اجمالی جائزہ چند اور اہم پہلو وں کی جانب توجہ کھینچتا ہے۔ مصنف کا تعلق چونکہ شعر و ادب سے گہرا ہے۔ اس لیے کتاب زبان و بیاں کے حسن، اسلوب کی دلکشی، شعری تماثیل، معروف تلمیحات اور دیگرادبی محاسن سے مزیّن ہے۔ اگر ہم مضامین یا کالموں کی شۂ سرخیوں پر جائیں تواکثر اپنی انفرادیت گنگناتے دکھائی دیتی ہیں۔ جیسے’’ اپنی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے ‘‘، ’’دامن کو اُن کے آج حریصانہ کھینچے‘‘ ، ’’ سانوں گھُٹ گھُٹ زہرپلاویں‘‘ وغیرہ۔
’’ آئین کا مقدمہ‘‘ کے منزّہ شہود پر آنے کے بعد سے وطنِ عزیز کے آئینی معاملات پہلے سے بدتر ہو چکے ہیں۔ تیرہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے جس آئینی بے توقیری کے ڈنکے بجائے ہیں، وہ یقیناََسعید آسی کی تجزیاتی نوشت کا آئندہ مرکزی موضوع ٹھہریں گے۔
٭…٭…٭