مہنگائی کے باعث حکومت کی غیر مقبولیت
ایک سال سے زائد عرصہ پہلے حکمران اتحاد نے ان دعوو¿ں کے ساتھ زمامِ اقتدار سنبھالی تھی کہ وہ ملک کی معیشت کو بہتری کی راہ پر گامزن کرے گا اور عوام کے مسائل حل کرے گا لیکن ان دعوو¿ں میں سے کتنے حقیقت کا روپ دھار سکے، یہ سب کے سامنے ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اثرات سے متعلق اب اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے پاکستان کی کنٹری رپورٹ جاری کی ہے جس میں سیاسی عدم استحکام، سکیورٹی اور معاشی کمزوریاں بڑے مسائل قرار دیے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے نیا آئی ایم ایف پروگرام لینا پڑے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کا اپنی مدت پوری کرنے کا امکان ہے اور عام انتخابات اکتوبر 2023ءمیں ہونے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں بیان ہونے والی سب سے اہم بات یہ ہے کہ مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ بڑھنے سے حکومت مقبولیت کھو چکی ہے۔ حکومت سے ہٹ کر ریاست کے معاملات کی طرف دیکھا جائے تو پاکستان نے چار سال میں 77.5 ارب ڈالر بیرونی قرضہ واپس کرنا ہے اور معاشی شرح نمو کی حالت یہ ہے کہ اس سال یہ 1.5 فیصد ہے اور اگلے سال اس کے منفی 0.2 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے تاہم ایک خوش آئند بات ہے کہ آئندہ برس میں مہنگائی کے کم ہونے کی نوید بھی سنائی جارہی ہے لیکن تب تک عوام مہنگائی کی چکی میں پستے رہیں گے ۔ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں اگر واقعی انتخابات میں عوام کے سامنے جا کر ان سے دوبارہ مینڈیٹ لینے کی خواہش رکھتی ہیں تو انھیں ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے عوام کے معاشی مسائل میں کمی آئے۔