”پنجاب، تخت اور ”تخت ِ لہور“ کی کہانیاں !“
معزز قارئین! بعض اوقات پاک، پنجاب کے سیاستدانوں کی طرف سے ”تخت ِ پنجاب“ کا تذکرہ ہوتا ہے۔ حالانکہ 1947ءکے بعد بھارتی پنجاب اور پاک پنجاب دو الگ الگ صوبے ہیں۔ ”فارسی لفظ ”پنجاب “ کے معنی تھے کہ ”ہندوستان کا وہ صوبہ جس میں پانچ دریا، جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج تھے“۔ فی الحال مَیں تو ”پاک پنجاب“ اور پاکستان کے قدیم اور موجودہ سیاستدانوں کی اُن "Terminologies" (مخصوص اصطلاحات) کے بارے گفتگو کروں گا جو ”پنجاب اور تخت پنجاب یا اُس سے پہلے تخت لہور “ کے نام سے مستعمل تھا لیکن اب ایسا کیوں کہا جاتا ہے؟ سب سے پہلے پنجاب کے بارے قدیم اساتذہ، شعرا کاکلام برداشت کریں ....
ہوگیا بحرین میرے رونے سے مچھی بھون!
صاف عالم ہوگیا ، پچ محلے پر پنجاب کا!
(سلطان رشک)
....O....
گومتی میں ہوئی ،امل جو مرے، چار آنسو!
لکھنو فیض قدم سے مرے پنجاب ہوا!
(شوکت واسطی)
....O....
” تخت “ کے معنی !“
فارسی زبان کے لفظ ”تخت “ کے معنی ہیں۔ ”بادشاہ کے بیٹھنے کی جگہ داراُلسلطنت ، داراُلخلافہ“ اور ” تخت بخت“ کے معنی ہیں ”راج، سہاگ، عیش و آرام تخت پر بٹھانا، تخت نشین کرنا، بادشاہ بنانا“۔کئی عظیم شخصیات اور بادشاہوں کے نام سے ”تخت“ بھی مشہور ہیں۔ مثلاً ”تخت سلیمان ؑ، تخت طاﺅس“۔ اُستاد شاعر شرف اُلدّین بصیری نے نہ جانے کس پر طنز کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ....
” مرتے ہیں تم پہ کیوں، ہوس سلطنت کریں!
تابوت چاہیے ہمیں، تخت رواں سے کیا ؟“
”حضرت شاہ حسین کا اپنا انداز ہے !“
معزز قارئین! پنجاب کے صوفی اور پنجابی شاعر ، شاہ حسین المعروف مادھول لعل حسین (1538ئ۔ 1600ئ) نے ”داراُلسلطنت“ کے بجائے ”درویشی“ ( فقیری ) کے ” تخت“ کے بار ے فرمایا تھا کہ ....
کہے حسین فقیر سائیں دا!
تخت نہ ملدے منگے!
مینڈی جان جو رنگے سو رنگے!
مستک جنہاں دے پئی فقیری!
بھاگ تنہاں دے چنگے!
سرت دی سوئی، پریم دے دھاگے!
پیوند لگے ست سنگے!
کہے حسین فقیر سائیں دا،
تخت نہ ملدے منگے!
یعنی ” جن کی قسمت میں درویشی ہو ، اُن کی قسمت بہت اچھی ہوتی ہے، سوج بوجھ کی سُوئی اور محبت کے دھاگے!“۔
” جیسا رنگنا چاہے رنگ دے !“
کے عنوان سے شاعر اور ادیب ضمیر اظہر نے اِس نظم کا ترجمہ کرتے ہُوئے لکھا ہے کہ ” (تقدیر جس کو ) جیسا رنگنا چاہے رنگ دے، جن کے چہروں پر فقیری کی مہر لگی ہوئی ہے، اُن کے نصیب اچھے ہیں۔ (ایسے اللہ لوگوں کے جسم لباس پر ) عقل کی سوئی نے عشق کے دھاگے سے بیچ کے پیوند لگا رکھے ہیں۔ اللہ کا فقیر حسین کہتا ہے، تخت صرف خواہش کرنے سے نہیں مل جاتے ! “ ۔
مختلف شعرا ءنے اپنے اپنے انداز میں تخت کے بارے کچھ یوں کہا ہے کہ ....
” دلی میں آج بھیکھ بھی ملتی نہیں انھیں!
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا!
(میر تقی میر)
واسطے دیکھنے کے آرسی مصحف جس دم!
بیاہ کی رات رکھا تخت پہ نوشہ نے قدم!
(سودا)
....O....
امجد اسلام امجد کہتے ہیں کہ ....
ہر ایک تخت سے بالا ہے بوریا جس کا!
ہمیں ہے کام ا±سی دو جہان والے سے!
....O....
مملکت ح±سن سی نہیں کوئی!
عشق سا کوئی تخت و تاج نہیں!
....O....
غلام سر اٹھائیں گے!
کہاں تھا تخت کو گماں!
....O....
دیکھتا رہتا ہے مج±ھ کو رات دِن!
کوئی اپنے تخت پر بیٹھا ہ±وا !
....O....
” لہور “ کیسے ”لاہور “ہوگیا ؟ “
معزز قارئین ! ہندو قوم اپنی ”دیو مالا “ کے مطابق ”وِشنو دیوتا “ کے اوتار بھگوان رام کی پوجا کرتے ہیں لیکن شاعر مشرق، علاّمہ اقبال نے اپنی نظم ”رام“ لکھی جس کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں ....
” تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا!
پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا!“
....O....
ہندو دیو مالا کے مطابق موجودہ ”لاہور“ رام جی کے بیٹے لَو (Lav) نے آباد کِیا تھا ، جسے ” لَو پور “ ( لَو کا علاقہ/ شہر ) تھا۔
” جلال اُلدّین اکبر !“
مُغل بادشاہ جلال اُلدّین اکبر (1556ئ۔ سے 1605ءتک ) ہندوستان کا بادشاہ رہا ۔ 20 سال صوبہ پنجاب کے صدر مقام لاہور میں رہا جس کا نام بہت پہلے ”تخت لہور“ مشہور ہوگیا تھا۔ اکبر بادشاہ کے باغی ، ساندل بار (دریارے راوی اور چناب کے درمیان خطہ) کے ہیرو رائے عبداللہ خان بھٹی المعروف ”دُلاّ بھٹی“ کی شجاعت بیان کرتے ہُوئے مختلف شاعروں نے رزمیہ نظمیں لکھی تھیں، جنہیں دُلّے دِی وار“ کہا جاتا ہے ۔ ایک بار میں دُلاّ بھٹی نے اکبری فوجوں کے خلاف چڑھائی کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ....
” مَیں ڈھاواں دِلّی دے کِنگرے!
تے بھاجڑ پا دِیاں ، تخت لہور!“
....O....
یعنی: ” مَیں دہلی کے میناروں کو گرا دوں گا اور تخت لہور پر حملہ کر کے ، وہاں مَیں بھگدڑ مچا دوں گا !“۔
”گورنر پنجاب لارڈ میکلوڈ!“
معزز قارئین ! اُن دِنوں برطانوی پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر ڈانلڈ لارڈ میکلوڈ تھے، جب مرزا اسد اللہ خان غالب نے ایک قصیدہ لکھ کر بھیجا تھا ، جس کا مطلع تھا....
” کرتا ہے چرخ، روز بعد گونہ، احترام!
فرما روائے کِشورِ پنجاب ، کو سلام!“
.... O ....
” پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب ! “
معزز قارئین ! 14 اگست 1947ءکو مصّورِ پاکستان علاّمہ اقبال اور بانی ¿ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی جدوجہد سے ” آل انڈیا مسلم لیگ “ کے پرچم تلے مسلمانوں نے الگ وطن پاکستان حاصل کرلِیا تھا، پھر پنجاب دو حصّوں میں تقسیم ہُوا ”پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب “۔ پاک پنجاب میں جتنے بھی حکمران، گورنرز، وزرائے اعلیٰ یا مارشل لاءایڈمنسٹریٹر حکمران آتے رہے ، اُن کے دَور میں لاہور کو ”تخت لہور “ ہی کہا جاتا رہا ۔ پنجابی زبان کا ایک چٹکلہ ہے کہ ....
” جِنے لہور نئیں ویکھیا، اُوہ، جمیّا اِی نئیں !“
.... O ....
بہر حال اہلِ پاک پنجاب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا گو ہیں کہ ”تخت لہور“ سلامت رہے اور پاکستان بھی، (آمین!) ۔