• news
  • image

فاسٹ باؤلرز میں مقابلہ پاکستان کرکٹ کیلئے بہتر ہے

حافظ عمران 
میر حمزہ کا شمار باصلاحیت اور فرسٹ کلاس کرکٹ کے کامیاب فاسٹ بائولرز میں ہوتا ہے۔ وہ 94 فرسٹ کلاس میچز میں 377 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔ لسٹ اے کے 84 میچز میں 120 جبکہ 53 ٹی ٹونٹی میچز میں 52 وکٹیں اپنے نام کر چکے ہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ کے وسیع تجربے کے باوجود انہیں انٹرنیشنل کرکٹ میں تواتر کے ساتھ مواقع نہیں ملے اور جن 3  ٹیسٹ میچز میں انہیں موقع ملا وہ موثر کن کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ میر حمزہ کا شمار اُن کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جو نظرانداز کیے جانے کے باوجود دلجمعی کے ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ شریک ہوتے ہیں اور ہر وقت بہتر کھیل کے سلیکٹرز کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ان دنوں وہ پاکستان شاہینز کا حصہ ہیں۔ یہ ٹیم 30 اپریل کو دورہ زمباوے کے لیے روانہ ہو گی۔ 
فاسٹ بائولر میر حمزہ کہتے ہیں کہ پاکستان شاہینز کا دورہ زمبابوے خوش آئند ہے ، اس دورے سے نوجوان کھلاڑیوں کو بھی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے گا اور اُس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اپنی فٹنس اور فارم ثابت کرنے میں آسانی ہو گی۔ زمبابوے میں 6 ون ڈے اور 2 چار روزہ میچز کھیلے جائیں گے۔ یہ اچھی میچ پریکٹس ہے اور سب کے لیے اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنے کا بہت اچھا موقع ہے، کیونکہ پاکستان شاہینز کی کرکٹ کا معیار ڈومیسٹک کرکٹ سے بلند ہے، جو بھی کرکٹر یہاں پرفارم کرے گا تو وہ میچ پریکٹس میں ہو گا اگر بہتر کھیل کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ یقینی طور پر نظروں میں ہو گا۔ بہت مرتبہ ایسا ہوا کہ اچھی پرفارمنس کے باوجود پاکستان ٹیم کے لیے منتخب نہیں ہوا بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ بالکل منزل کے قریب پہنچا لیکن خواب پورا نہ ہو سکا۔ ایسی صورتحال میں دُکھ اور تکلیف ضرور ہوتی ہے لیکن ایک پیشہ ور کرکٹر کا یہی کام ہے کہ وہ محنت کرتا رہتا ہے اور محنت سے دُور نہیں بھاگتا۔ مجھے یہ چیز ہمیشہ حوصلہ دیتی رہی کہ واپس آنا ہے اور قومی ٹیم میں جگہ بنانی ہے۔ میں کبھی راستے سے بھٹکا نہیں ذہنی طور پر مزید مضبوط ہوتا ، اپنی خامیوں کو دور کرنے اور صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے لیے کھیل کے میدان سے جڑا رہا ، قومی ٹیم میں بھی واپس آیا ، پاکستان شاہینز میں بھی کم بیک کیا، پاکستان سُپرلیگ بھی کھیلا۔ ایک بات تو طے ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ کرکٹر کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی ذات کے لیے کھیل کے میدان تک نہیں جاتا ، کسی بھی کھلاڑی کی فیملی اور پرستاروں کی بڑی تعداد بھی اُسے کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے ، پھر کرکٹرز کو کرکٹ کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا اور جب وہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ کھیل کے میدان کو دے چکے ہوتے ہیں تو اس موقع پر کسی اور طرف جانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ماضی میں دیکھتے ہیں تو بہت سارے کرکٹرز کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ جب انہیں مناسب مواقع نہیں ملے لیکن یہ کھیل کا حصہ ہے اور اگر آپ مکمل توجہ اور یکسوئی کے ساتھ محنت کرتے ہیں تو ایک دن موقع ضرور ملتا ہے۔ زندگی میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آپ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں جو آپ کو ترقی کرتے اور آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتے ہیں ، بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شاید یہ کھلاڑی بہت مشکل کرکٹ کے لیے مناسب نہیں ہے یا بس یہ نچلی سطح پر ہی کھیل سکتا ہے۔ جب ایسے بیانات سننے کو ملتے ہیں تو پھر ایک نئی تحریک پیدا ہوتی ہے کہ میں نے واپس کھیل کے میدان میں جانا ہے اور سب سے اوپر والی سطح پر کرکٹ کھیلنی ہے پرفارم کرنا ہے اور کچھ نہیں تو کم از کم ان لوگوں کو تو ضرور ثابت کرنا ہے جو میری صلاحیتوں پر شک کرتے ہیں۔ کرکٹرز کو کسی ایک فارمیٹ تک محدود کرنے کے حوالے سے بھی خیالات سامنے آتے ہیں کہ فلاں کرکٹر صرف طویل دورانیے کی کرکٹ کے لیے بہتر ہیں فلاں صرف ٹی 20 اچھا کھیل سکتا ہے جب کھلاڑی یہ باتیں سنتے ہیں تو پھر ان میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا ہوتا ہے پی ایس ایل کے دوران ایک موقع ایسا بھی ایسا جب بابر اعظم ہماری کپتانی کر رہے تھے میچ آخری مراحل میں تھا بہت دبائو والی صورتحال تھی میں نے خود جا کر بابر اعظم سے یہ کہا کہ یہاں مجھے بائولنگ دی جائے میں میچ جتوا سکتا ہوں۔ وہ ایسا موقع تھا کہ نتیجہ کسی کے بھی حق میں ہو سکتا تھا میں خراب بائولنگ کرتا تو ہماری ٹیم میچ ہار بھی سکتی تھی لیکن کامیابی کے لیے ایسے فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ بابر اعظم نے میری بات سُنی اور گیند مجھے تھما دی۔ اللہ کا شُکر ہے کہ میں نے اچھی بائولنگ کی اور ہمیں کامیابی بھی ملی۔ ہمارا لاہور سے میچ ہو رہا تھا اور قلندرز کو آخری دو اوورز میں 27,28 رنز درکار تھے۔ بابر 19 واں اوور کسی اور بائولر سے کروا رہے تھے تو میں نے کپتان سے کہا کہ 19 واں اوور مجھے کرنے دیں یہیں سے میچ بدلے گا تو انہوں نے فوراً گیند مجھے تھمائی چونکہ میں بابر اعظم کے ساتھ انڈر 19 سے کرکٹ کھیلتا آ رہا ہوں تو وہ میری صلاحیتوں سے واقف ہیں۔ یہ کپتان اور کھلاڑی کے مابین اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے جس سے کارکردگی پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ چونکہ فرسٹ کلاس کرکٹ اور اس دوران جہاں جہاں بھی کرکٹ کھیلتا رہا ہوں جو بھی منفی باتیں سُننے کو ملتی ہیں اُن کے بعد یہ ذہن میں ضرور رہتا ہے کہ میں نے اپنے کھیل سے ناقدین کو غلط ثابت کرنا ہے، بہتر پرفارم کرنا ہے ، اپنی ٹیم کو میچ جتوانے ہیں، وکٹیں حاصل کرنی ہیں اور کامیابی کے ساتھ پاکستان کی نمائندگی کرنی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب آپ محنت کرتے رہے ہیں اور جب بھی موقع ملے کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ بابر اعظم ایک ورلڈ کلاس بلے باز ہیں وہ تکنیکی اعتبار سے بہت مضبوط ہیں اُن کے پاس بہت زیادہ شارٹس ہیں اور اگر کسی بلے باز کی تکنیک بہت مضبوط ہو تو اُسے بائولنگ کرنا نسبتاً مشکل ہوتا ہے ان حالات میں اُسے لائن اور لینتھ پر بائولنگ کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ وہ غلطی کرے اور آئوٹ ہو۔ مکینیکل انجینئرنگ میں داخلہ ہو گیا تھا انجینئر بنتے بنتے کرکٹر بن گیا۔ تعلیم کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہا ہوں۔ میں بالکل بھی دلبرداشتہ نہیں ہوں مجھے یقین ہے کہ دوبارہ پاکستان کے لیے کھیلوں گا بہت اچھا وقت چل رہا ہے اور اچھی خاصی تعداد میں فاسٹ بائولرز کی موجودگی پاکستان کرکٹ کے لیے فائدہ مند ہے۔ سب بائولرز اپنی کسی خاصیت کی وجہ سے ٹیم میں جگہ بناتے ہیں، حارث رئوف تیز ہے ، شاہین آفریدی کی صلاحیت کے بارے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے ، احسان اللہ بہت اچھا آئے ہیں، نسیم شاہ کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے ، حسنین تیز گیند بازی کرتا ہے، زمان خان نے بھی سب کو متاثر کیا ہے تو یہ پاکستان کے لیے اچھا ہے۔ مجھے اپنی صلاحیتوں پر یقین ہے میں اپنی صلاحیتوں میں اضافے اور کھیل میں نکھار پیدا کرنے کے لیے کام کر رہا ہوں اور دوبارہ پاکستان ٹیم کا حصہ بننے کے لیے پُرامید ہوں۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن