آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر، بجٹ تیاری مشکل، دکانداروں پر ٹیکس لگنے کا امکان
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وفاقی حکومت اور عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے درمیان سٹاف سطح کے معاہدے میں تاخیر کے باعث آئندہ مالی سال 2023-24ء کے وفاقی بجٹ کی تیاری میں شدید مشکلات کا انکشاف ہوا ہے۔ وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے مالی سال کے بجٹ کیلئے خسارہ پورا کرنے کیلئے فنانسنگ کے ساتھ ساتھ ڈالر اور روپے کی شرح کے تناسب کے تعین نہ ہونے کے باعث بجٹ تخمینہ جات طے کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ ان عوامل کے علاوہ مردم شماری کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ سے بھی تخمینہ جات طے کرنے میں دشواری درپیش ہے۔ ذرائع کے مطابق ابھی تک بجٹ کی حکمت عملی کو دستاویزی سطح پر بھی تیار نہیں کیا جاسکا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر سٹریٹجی پیپر اپریل کے دوسرے ہفتے میں کابینہ سے منظوری لی جانی تھی۔ ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف کیساتھ سٹاف لیول معاہدے میں تاخیر سے ترقیاتی اور جاری اخراجات کیلئے بجٹ کی حد مقرر کرنے کا شیڈول بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس بھی تاحال طلب نہیں کیا جا سکا، بجٹ سے متعلق نیشنل اکنامک کونسل کا اجلاس مئی کے پہلے ہفتے میں ہوگا۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے میں تاخیر سے نئے بجٹ کی تیاری کا شیڈول متاثر ہونے لگا۔ ذرائع کے مطابق ٹیکس ریونیو‘ مالی خسارے‘ ترقیاتی بجٹ اور اہم اہداف کی آئی ایم ایف سے منظوری لی جائے گی۔ دوسری طرف ترقیاتی اور جاری اخراجات کے لئے بجٹ کی حد مقرر کرنے کا شیڈول بھی متاثر ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس بھی تاحال طلب نہیں کیا جا سکا‘ بجٹ سے متعلق نیشنل اکنامک کونسل کا اجلاس مئی کے پہلے ہفتے شیڈول ہے۔ ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق کابینہ سے منظوری کے لئے بجٹ دستاویز کو مئی کے آخر تک حتمی شکل دی جائے گی جبکہ بجٹ جون کے پہلے ہفتے کابینہ اور پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا پلان ہے۔ دوسری طرف آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں دکانداروں پر ٹیکس عائد کیے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط پر دکانداروں پر ٹیکس عائد کرنے کیلئے سپیشل سکیم لانچ کی جائیگی جس کے تحت دکانداروں کیلئے بجلی کے بلوں پر ٹیکس لگایا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں دکانداروں سے ٹیکس وصول کریں گی، سکیم سالانہ ایک کروڑ روپے آمدن والے دکاندار اور سروسز فراہم کرنے والوں پر لاگو ہوگی۔ وزارت خزانہ اور ایف بی آر حکام کے درمیان اس حوالے سے آج اہم اجلاس ہو گا۔
بجٹ مشکل
اسلام آباد (عترت جعفری) بجٹ 2023-24ء کے مئی میں پیش ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ اس کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ جائزہ کا ابھی تک مکمل نہ ہونا ہے، جبکہ جون سے پہلے دو قرض پروگرام پورا ہونا ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک آئی ایم ایف کے ساتھ بجٹ کے بارے میں مشاورت مکمل نہ ہو اس کو حتمی شکل نہیں دی جا سکتی، اس لئے امکان ہیپروگرام کی معیاد جو 30جون کو مکمل ہونا ہے ا س میں توسیع کا آپشن استعمال کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہیں، ماہرین پہلے ہی کہہ چکے ہیںکہ پاکستان کو کو آئی ایم ایف سے نیا پروگرام لینا پڑے گا، بجٹ کی تیاری اس وقت ہو رہی ہیں اور ایف بی آر سمیت معاشی وزارتوں میں بجٹ کے متعلق سرگرمیاں چل رہی ہیں، حکومت کا بجٹ کے معاشی خدوخال طے کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہیں۔ اس لئے واضح شواہد ہیں بجٹ دو سے 9جون کے درمیان ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔ ابھی تک بجٹ پر جو ابتدائی کام ہوا ہے اس کے تحت پرچون فروشوں کے لئے ٹیکس نیٹ کو سخت کرنے تجویز ہے۔ پانچ ایکسپورٹ سیکٹرز کو گیس پر 80 ارب روپے کی سبسڈی ختم کردی گئی، سوئی نادرن نے یکم مئی سے سبسڈائزڈ گیس کی فراہمی ختم کرنے کا نوٹفکیشن جاری کر دیا۔ یکم مئی سے تمام ایکسپورٹس سیکٹرز پر اوگرا کے منظورکردہ ریٹ نافذ کردیئے گئے۔ ایکسپورٹس سیکٹرز کو آر ایل این جی پر 4ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اضافی ادا کرنا ہونگے۔ جبکہ مالی سال کے پہلیدس ماہ کے دوران ریونیو کے جو جو اعداد وشمار سامنے آئے ہیں ان کے ماطابق ایف بی آر کے ریونیو شارٹ فال میں مذید اضافہ ہو گیا ہے۔ شارٹ فال رواں مالی سال کے دس ماہ کے دوران 400 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ ایف بی ار اپریل کا ماہانہ 586 ارب روپے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا، اس لئے بجٹ میں نئے ٹیکس اقدامات کرنا پڑیں گے۔
بجٹ مشکل