چودھری پرویز الٰہی کے گھر چھاپے مذاکرات سبوتاژ کرنے کی سازش؟
لاہور پولیس کی معاونت سے انٹی کرپشن ٹیم نے گزشتہ روز سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور پی ٹی آئی کے صدر چودھری پرویز الٰہی کے گھر گلبرگ لاہور میں چھاپہ مارا اور گیٹ توڑ کر گھر کے اندر داخل ہو گئی جبکہ پولیس اہلکار دیواریں پھلانگ کر بھی گھر کے اندر داخل ہوئے۔ اس دوران گھر کے ملازمین نے مزاحمت کی تو پولیس نے 14 ملازمین کو حراست میں لے لیا۔ انٹی کرپشن ٹیم اور پولیس کا یہ اپریشن جمعۃ المبارک کو رات گئے تک جاری رہا جبکہ ہفتے کی صبح چودھری پرویز الٰہی کی گھر میں موجودگی کی اطلاع ملنے پر پولیس اور انٹی کرپشن ٹیم نے دوبارہ انکے گھر پر چھاپہ مارا تاہم دونوں بار انہیں چودھری پرویز الٰہی کی گرفتاری میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چودھری پرویز الٰہی کے گھر چھاپے سے قبل پولیس نے اطراف کے علاقوں کو سیل کر دیا اور شہریوں کی آمدورفت بند کر دی۔ جب انٹی کرپشن ٹیم نے چودھری پرویز الٰہی کی گرفتاری کیلئے کارروائی کا آغاز کیا تو پولیس نے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ اور پی ٹی آئی کارکنوں کی ممکنہ پیش قدمی روکنے کیلئے پوزیشنز سنبھال لیں جبکہ چودھری پرویز الٰہی کے گھر کے اندر سے پولیس پر پریشر سے پانی اور مٹی کا تیل بھی پھینکا گیا اور پتھرائو بھی کیا گیا۔ انٹی کرپشن ٹیم کے مطابق وہ چودھری پرویز الٰہی کو انکے خلاف گوجرانوالہ میں درج مقدمے میں گرفتار کرنے آئے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کے وکیل نادر دگل نے چھاپہ مارنے والی ٹیم کو بتایا کہ متذکرہ مقدمہ میں عدالت پہلے ہی چودھری پرویز الٰہی کی 6 مئی تک حفاظتی ضمانت منظور کر چکی ہے تاہم وہ عدالتی احکام نہ دکھا سکے۔
پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے چودھری پرویز الٰہی کے گھر چھاپے اور توڑ پھوڑ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ اس پولیس کارروائی میں خواتین اور فیملی ممبرز کا بھی احترام نہیں کیا گیا۔ شریف اور زرداری خاندانوں کی اس طرح سرپرستی؟ بس بہت ہو گیا‘ آج میں اپنی قوم کو روڈ میپ دوں گا۔ ہم پاکستان میں جمہوریت کا خاتمہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسی بربریت مشرف کے مارشل لاء میں بھی نہیں دیکھی۔ یہ سب پی ٹی آئی کو کرش کرنے کے لندن پلان کا حصہ ہے۔ پہلے میرے گھر پر حملہ کیا گیا۔ اب پرویز الٰہی کے گھر۔ پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری کے بقول ایک طرف مذاکرات اور دوسری طرف گرفتاریوں کیلئے چھاپوں سے لگتا ہے کہ اسحاق ڈار‘ سعد رفیق اور اعظم نذیر تارڑ کی کوئی حیثیت نہیں۔
بے شک قانون کی نظر میں ہر شہری کو مساوی حیثیت حاصل ہے‘ اسکی جان‘ مال اور عزت نفس کی حفاظت ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے تو کسی جرم کے ارتکاب پر بھی قانون کی عملداری ہر متعلقہ شخص پر یکساں طور پر لاگو ہوتی ہے۔ قانون کسی مقدمے میں نامزد ملزم یا ملزمان کو دفاع کا حق بھی دیتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر قانون کی گرفت بھی بلاامتیاز ہوتی ہے۔ چودھری پرویزالٰہی کے گھر جمعۃ المبارک کی رات اور ہفتے کے روز جس طرح چھاپے مارے گئے اور پولیس گیٹ توڑ کر اور دیوار پھلانگ کر گھر کے اندر داخل ہوئی جس کے بعد گھر کے ملازمین کے بقول پولیس نے توڑ پھوڑ بھی کی اور گھر میں موجود خواتین کو ہراساں بھی کیا‘ یہ اقدام قانون کی عملداری کے تقاضوں سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتا۔ بالخصوص اس حوالے سے بھی کہ متعلقہ عدالت نے گزشتہ روز پرویزالٰہی کی حفاظتی ضمات بھی 6 مئی تک منظور کرلی تھی جس کی مصدقہ کاپی انہیں اگلے روز ملنا تھی۔ جب چودھری پرویز الٰہی کے وکلاء نے چھاپہ مار پارٹی کو عدالتی احکام سے آگاہ کر دیا تو اسے عدالتی احکام کی مصدقہ کاپی موصول ہونے تک کارروائی مؤخر کر دینی چاہیے تھی مگر جس طرح کارروائی جاری رکھی گئی اور پرویزالٰہی کی گرفتاری کیلئے انکے گھر دوبارہ چھاپہ مارا گیا‘ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ انٹی کرپشن ٹیم اور پولیس کا یہ ایکشن کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت ہوا ہے جس کا مقصد سیاسی اشتعال میں کمی اور ایک ہی دن انتخابات کی کسی تاریخ پر اتفاق کرنے کیلئے حکومتی اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے مابین جاری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ ان مذاکرات کے دوسرے رائونڈ میں جو گزشتہ روز پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا‘ ایک ہی دن عام انتخابات کیلئے دونوں اطراف سے تجاویز سامنے آئیں اور اس توقع کا اظہار ہوا کہ منگل کے روز ہونیوالی مذاکرات کی نشست میں فریقین کے مابین معاملات طے ہو جائیں گے مگر مذاکرات کا دوسرا رائونڈ ختم ہونے کے ساتھ ہی چودھری پرویز الٰہی کے گھر اسی طرح دھاوا بول دیا گیا جیسے عمران خان کے گھر زمان پارک میں انکے عدالت میں پیشی کیلئے اسلام آباد روانہ ہونے کے بعد پولیس کارروائی عمل میں لائی گئی تھی۔
اگر عمران خان‘ چودھری پرویز الٰہی یا پی ٹی آئی کے دوسرے عہدیداروں کیخلاف مقدمات درج ہیں تو انہیں قانونی اور عدالتی طریق کار کے مطابق ہی ڈیل کرنا چاہیے۔ اسکے برعکس جبری انتظامی‘ ریاستی ہتھکنڈہ استعمال کیا جائیگا تو اس سے قانون سے ماوراء کسی اقدام کی ہی عکاسی ہوگی اور ایسے اقدامات لامحالہ حکمرانوں کی جانب سے اپنے سیاسی مخالفین کیخلاف انتقامی کارروائیوں سے ہی تعبیر ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں موجودہ حکمران جماعتوں کی قیادتیں اپنے خلاف مقدمات اور گرفتاریوں پر اسی تناظر میں شاکی رہیں اور ان اقدامات کو حکومتی انتقامی کارروائیوں کے کھاتے میں ڈالتی رہیں۔ اب اگر انکے دور حکومت میں انکی مخالف پی ٹی آئی کی قیادت کیخلاف ایسے ہی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تو یہ بھی انتقامی سیاسی کارروائی کے ہی زمرے میں آئیں گے جس سے سیاسی افہام و تفہیم اور رواداری کی فضا تو کبھی پنپ نہیں پائے گی جبکہ اس سے سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھے گا تو ملک کے بدخواہوں کو ملک کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشیں پروان چڑھانے کا مزید موقع ملے گا۔ ہم نفرتیں کاشت کرکے امن کی فصل حاصل کرنے کی توقع تو ہرگز نہیں کر سکتے۔ یہ صورتحال حکمرانوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے کیونکہ اس سے سسٹم کی جانب لپکتے ہوئے خطرات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔