طلبِ پکشپاتِ یاراں
لینڈ کروزر گاڑی میں دو بوری گندم اور ایک تھیلہ آٹا پڑا ہوا تھا. اس زمانے میں جڑواں شہر میں آٹے کی قلت تھی جو کہ اکثر و بیشتر اب بھی ہوتی رہتی ہے. گاڑی چلانے والا ایک خوبرو نوجوان تھا جبکہ ساتھ سیٹ پر بیٹھے صاحب شکل و شباہت سے اس کے والد لگ رہے تھے. علیک سلیک کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو ان صاحب نے مجھے تعارف کرانے کو کہا. میں نے اپنا محکمانہ تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میرا دفتر راولپنڈی کچہری میں واقع ہے. مزید کہا کہ آپ سے لفٹ کی درخواست کرنیوالے چوہدری غلام جعفر میرے کالج اور یونیورسٹی کے کلاس فیلو رہ چکے ہیں. میری بات مکمل ہونے کے بعد وہ پوچھنے لگے چوہدری قمر زمان (سابقہ چیئرمین نیب) آجکل کدھر ہیں؟ میں نے کہا وہ 1992 ء میں ڈپٹی کمشنر راولپنڈی تھے. اسکے بعد کا نہیں پتہ. کہنے لگے "میں اور قمر دونوں پشاور میں اکٹھے پوسٹڈ رہے ہیں. وہ ڈپٹی کمشنر پشاور تھا اور میں ایس ایس پی پشاور آجکل میری تعیناتی ایف آئی اے، اسلام آباد میں ہے"
گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے "والدہ کیساتھ عید منانے کیلئے بڑے بیٹے کے ساتھ گاؤں گیا تھا. اِس نے ایف ایس سی کا امتحان دیا ہے اور آجکل فارغ ہوتا ہے. باقی بچے اسلام آباد میں ہی ہیں اور ہمارا انتظار کر رہے ہیں. والدہ نے اسلام آباد میں آٹے کی قلت کے پیش نظر دو بوری گندم اور ایک آٹے کا تھیلہ ہمارے منع کرنے کے باوجود گاڑی میں رکھوا دیا تھا". انہوں نے اپنا نام چوہدری شریف بتایا تھا. نام کا دوسرا یا پہلا لفظ بہت زور دینے کے باوجود بھی میرے ذہن میں نہیں آ سکا. انکی شکل اب بھی میرے ذہن پہ نقش ہے. انہوں نے مجھے اپنے دفتر آنے کی دعوت بھی دی تھی. میری لاپرواہی کہ میں چاہتے ہوئے بھی کبھی ان سے نہیں مل سکا۔ رات کو غلام جعفر کا فون آیا. حسبِ عادت لہکتے ہوئے کہنے لگے "دیکھی ہماری وردی کی طاقت، اتنی بڑی گاڑی والے سے آپکو لفٹ دلا دی". میں نے کہا کہ لفٹ دینے والا گریڈ 20 کا پولیس آفیسر تھا. جس نے مجھے لفٹ دیکر مفت میں اپنے محکمے کی عزت اور وقار میں اضافہ کرنے کی دانستہ سعی کی۔
عید کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد سرکاری دفاتر کی رونقیں بحال ہونے میں عموماً دو تین دن لگ جاتے ہیں. ملازمین اپنی زبانوں پر شہد یا شیرینی کا لیپ کرکے اپنے باس کو عید مبارک کہنے کیلئے حاضر ہوتے ہیں. میری میرے سابقہ باس شیر خان نیازی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے عید کے بارے میں پوچھا. میں نے جہلم جانے اور لفٹ لیکر واپس آنے کا سارا قصہ انہیں سنا ڈالا. وہ ہنس دیے. کہنے لگے، " تم ناحق جعفر کیلئے عید کے دن بچوں کو ناراض کرکے جہلم گئے. یقین مانو اگر تم نہ بھی جاتے تو بھی وہ خود کشی نہ کرتا. اس لئے کہ خود کشی کرنے والا اعلان نہیں کیا کرتا. خود کشی کرنا جتنا دشوار اور کٹھن عمل ہے. اس کا قصد کرنا اور زبانی اعلان کرنا ا تنا ہی آسان اور سہل ہے".مزید کہا "خود کشی کرنے والا مدعی بھی خود، وکیل بھی خود، منصف بھی خود اور جلاد بھی خود ہوتا ہے. بس خود کو قبر میں نہیں اتار سکتا. کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اپنی ہی جان لینا بڑے دل گردے کا کام ہے. ہوگا! مگر میرے خیال میں ایسا کرنے والا بزدل ہوتا ہے. اگر وہ با ہمت ہو تو پہلے اس کی جان لے جس کی وجہ سے وہ خود کشی کرنا چاہتا ہے جس طرح 21 مئی 1991 کو دھنی نامی ایک تامل لڑکی نے اپنی جان (خود کشی) کے بدلے راجیو گاندھی کی جان لی تھی".
ان کا یہ دلچسپ بھاشن سن کر مجھے لگا کہ وہ خود کشی پر لکھے گئے اپنے کسی تازہ انشائیے کی تلخیص بیان کر رہے ہوں‘ لفٹ کے حوالے سے انہوں نے جواب آں غزل کے طور پر اپنا ایک دلچسپ واقعہ سنا ڈالا. کہنے لگے "رات کے وقت میں اپنی سرکاری گاڑی میں میانوالی سے راولپنڈی آ رہا تھا. راستے میں ایک جوڑے کو ان کی گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے لفٹ دی۔ تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ وہ کسی بنک میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں. انکے مزاج میں حسِ مزاح دیکھ ان سے گفتگو کا دائرہ آہستہ آہستہ مختلف موضوعات پر پھیلتا چلا گیا.بات مہنگائی اور کم تنخواہوں کی ہوئی تو ایک واقعہ سنا ڈالا.کہنے لگے "میری بیوی غلام اسحاق خان کی بیگم کی کلاس فیلو اور دوست ہے. ایک لگی بندھی تنخواہ میں جب گھریلو اخراجات پورے ہوتے ہوئے محال نظر آئے تو میں نے اپنی بیوی کو بیگم غلام اسحاق خان سے طلبِ پکشپاتِ یاراں کے لالچ میں ملنے کیلئے بھیجا۔ اس وقت وہ وفاقی وزیر خزانہ تھے. مقصد یہ تھا کہ وفاقی وزیر کی سفارش پر اگر کہیں بیرون ملک پوسٹنگ ہو جائے تو مالی معاملات میں بہتری آ جائیگی"."میری بیوی جب ان کے گھر پہنچی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کی سہیلی یعنی بیگم غلام اسحاق خان چارپائیوں کی میلی نواڑ کو اپنے ہاتھ میں پکڑے ایک مضبوط ڈنڈے کے ساتھ کوٹ کوٹ کر دھو رہی تھی. اِسکو بہت عجیب لگا. تاہم چائے پیتے وقت بادلِ نخواستہ میری بیوی نے اسے آنے کا مقصد بیان کیا تو وہ ٹھنڈی سانس لے کر کہنے لگی "جو سرکاری سہولتیں مجھے دستیاب ہیں، ان میں سے ایک کی ایک ادنٰی سی جھلک آپ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہے.کئی دفعہ کہا ہے کہ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کیلئے دفتر سے ایک آدھ ملازم بھیج دیا کرو مگر وہ سنتا ہی نہیں۔ کبھی بازار جانا ہو تو کیا مجال کہ کبھی سرکاری گاڑی بھیجی ہو۔ ٹیکسی گاڑی پر جاتی ہوں اور اسی پر واپس آتی ہوں۔کبھی مجبوراً سرکاری گاڑی پر جانا پڑ جائے تو پٹرول پر آنیوالے اخراجات اپنی تنخواہ سے سرکاری خزانے میں جمع کرا دیتا ہے. اِن حالات میں اب تم خود بھی اندازہ لگا سکتی ہو کہ میں اِس 'بڈھے' سے تمہیں کیا favour دلا سکتی ہوں۔‘‘ (ختم شد)