• news

موسمیاتی تبدیلیاں خطرناک، زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے حکمت عملی کی ضرورت:شہزاد ملک


لاہور(کامرس رپورٹر )پاکستان ہائی ٹیک ہائبرڈ سیڈ ایسوسی ایشن (پی ایچ ایچ ایس اے) کے چیئرمین شہزاد علی ملک نے کہا ہے کہ غذائی عدم تحفظ والے خطوں بالخصوص ایشیائی ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زرعی پیداوار کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ روز مومن علی کی قیادت میں ترقی پسند کسانوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مختلف قسم کی موسمیاتی انتہاﺅں، یعنی خشک سالی، گرمی، شدید اور بے ترتیب بارش، طوفان، سیلاب اور کیڑے مکوڑوں نے زرعی پیداوار اور کسانوں کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں بھی درجہ حرارت میں نمایاں اضافے اور بے ترتیب و شدید بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ وسط صدی (2040-2069) کے حوالے سے پیش گوئی ہے کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں 2.8 سینٹی گریڈ اور کم سے کم درجہ حرارت میں 2.2 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے پائیدار پیداواری صلاحیت کے حامل، موسمیاتی اعتبار سے سمارٹ اور لچکدار زرعی طریق کار اپنانے اور ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ چاول اور گندم کی فصلوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا اندازہ لگانے اور وسط صدی (2040-2069) کے دوران ان کے نظام الاوقات کی حکمت عملی تیار کرنے کیلئے ایک کیس سٹڈی کی گئی ہے کیونکہ یہ دونوں فصلیں ہمارے غذائی تحفظ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کھیتوں میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی مقدار کے تعین کیلئے کثیر الجہتی سٹڈی پانچ موسمیاتی ماڈلز پر مشتمل تھی جس میں یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ چاول کی پیداوار میں 15.2 فیصد اور گندم کی پیدا وار میں 14.1 فیصد کی کمی ہو سکتی ہے دوسرے ماڈل میں چاول میں 17.2 اور گندم میں 12 فیصد کمی ظاہر کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ موافق ٹیکنالوجی، فصل کے نظام الاوقات مثلاً بوائی کے وقت، کثافت، نائٹروجن اور آبپاشی کے طریقہ کار میں جدت کو بروئے کار لا کر چاول اور گندم کی فصلوں کی مجموعی پیداواریت اور منافع کو بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ شہزاد علی ملک نے کہا کہ پاکستان کو غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے زرعی پیداوار پر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات و متعلقہ امور، چیلنجز اور زراعت کی پائیدار پیداواری صلاحیت کے حوالے سے ایک قابل عمل حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بوائی کے وقت میں تبدیلی اور فصلوں کے پودوں کی کثافت، پھلوں کے ساتھ فصل کی گردش، زرعی جنگلات، مخلوط لائیوسٹاک سسٹم، آب و ہوا سے ہم آہنگ پودوں، مویشیوں اور مچھلیوں کی اقسام، مونوگاسٹرک مویشیوں کی فارمنگ، قبل از وقت موسمیاتی وارننگ سسٹم اور بروقت فیصلہ سازی کے سسٹم، کاربن سیکوسٹریشن، آب و ہوا، پانی، توانائی اور مٹی کی سمارٹ ٹیکنالوجیز اور حیاتیاتی تنوع کو فروغ دے کر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن