ڈسکورڈ لیکس سے امریکی برہمی کی وجہ آشکار
کافی دنوں سے امریکہ کی پاکستان کے سیاسی معاملات میں دلچسپی بڑھ گئی تھی۔ وہاں کے ارکان کانگریس کے دلوں میں اچانک پاکستان میں جمہوری عمل یہاں کی سیاست میں اتھل پتھل اور خاص طور پر اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ سیاستدانوں اور سیاسی ورکرز کی گرفتاریوں اور سوشل میڈیا پر پابندیاں چبھنے لگی تھیں۔ کئی ارکان پارلیمنٹ نے اس پر آواز بلند کی تھی۔ سب سے بڑھ کر حیرت انگیز بات یہ رہی ہے کہ امریکہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان پردست شفقت رکھتے ہوے انکے امریکہ مخالف بیانئے کو اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کی امریکی سازش کے الزام تک کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اس پر بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب پی ٹی آئی کی طرف سے لابنگ کرنے والی فرموں کی بہترین کارکردگی کا کمال ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ سب امریکہ میں مقیم پی ٹی آئی کے ورکرز کی محنت کا کمال ہے۔ انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے یہاں کے کئی ارکان کانگریس کو ہمنوا بنا لیا اور عمران خان کے خلاف ان کی سوچ بدل دی ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے انداز میں تبصرے کر رہا ہے۔ مگر اب گزشتہ روز واشگٹن پوسٹ میں ڈسکورڈ لیکس کے افشا ہونے سے بہت معاملات واضح ہو رہے ہیں۔ کء رازوں سے پردہ اْٹھ رہا ہے۔ مستقبل کے کچھ خدوخال نمایاں ہو رہے ہیں۔ جس سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے نئے زاویے سامنے آ رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی عالمی سیاست کا مرکز و محور چین ہے جس کا عالمی سطح پر امریکہ سے بھرپور مقابلہ ہے۔ امریکہ، تائیوان کے مسئلے پر کھل کر چین کے مدمقابل کھڑا ہے۔ اسی طرح روس کے مسئلے پر امریکہ یوکرین کے ساتھ اتحادی بن کر اس جنگ میں یورپ کو ساتھ ملا کر بھرپور حصہ لے رہا ہے۔ اس حوالے سے اسے چین اور بعض دیگر مغربی ممالک کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔
حال ہی میں روس کے خلاف امریکہ نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف قرارداد جمع کرائی تاکہ عالمی سطح پر روس کے خلاف بھرپور پابندیاں لگا کر اسے دبا? میں لایا جائے۔ امریکہ کی بھرپور کوشش رہی کہ پاکستان اس قرارداد کی حمایت کرے۔ یہ پاکستان کے لیے ایک مشکل وقت تھا۔ ایک طرف روس تھا جس کے ساتھ وہ ماضی کو بھلا کر دوستی تجارت اور تعلقات کے نئے راستے کھولنا چاہتا تھا۔ دوسری طرف چین تھا جو کھل کر روس کی حمایت کر رہا ہے۔ چین پاکستان کا سب سے بڑا مخلص دوست ہی نہیں تجارتی ساتھی بھی ہے۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں سی پیک اور چین کا کردار نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس کی دوستی اور پاکستان کے ساتھ ہر میدان میں ثابت قدم رہنے کی پالیسیاں ہمارے لیے اطمینان کا باعث رہی ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ سرد جنگ سے لے کر افغان جہاد پھر طالبان اور القاعدہ و داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کا فرنٹ اتحادی پاکستان رہا۔ مگر امریکہ نے اس کے مقابلے میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کو ڈارلنگ سٹیٹ کا درجہ دیا اور اپنی محبت و نوازشات کا حقدار ٹھہرایا اور اپنے قریبی فطری حلیف کا درجہ دیدیا۔
اس تناظر میں گزشتہ روز امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں روس کے خلاف قرارداد کے موقع پر پاکستانی وزیر اعظم اور وزیر مملکت خارجہ امور کے درمیان جو ٹیلی فونک رابطہ ہوا اس میں جو گفتگو ہوئی اس کے افشا ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ حنا ربانی کھر نے میاں شہباز شریف کو روس کے خلاف قرارداد کی حمایت نہ کرنے کا پرزور مشورہ دیا اور کہا کہ اس قرارداد کی حمایت سے روس ناراض ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ توانائی کے معاہدے اور تجارتی تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان روس سے سستے تیل اور گیس کی خریداری اور تجارت کے متعدد نئے معاہدے کر چکا ہے۔ جس کے مثبت ثمرات جلد سامنے آئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حنا ربانی کھر نے کہا تھا کہ مغرب کو امریکہ کو ہر وقت خوش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قرارداد کی حمایت سے چین بھی ناراض ہو جائے گا جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ ایک برمحل اور مناسب تجویز تھی جس پر حکومت پاکستان نے اس قرارداد سے لاتعلق رہنے کا فیصلہ کیا جو ہر لحاظ سے پاکستان کے لیے بہتر تھا۔ اس سے امریکہ کو بہت تکلیف تو ہوئی ہو گی جو اب ظاہر ہو رہی ہے۔
اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسی سبب آج کل ایک بار پھر امریکہ کو پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اظہار رائے پر پابندیاں کچھ زیادہ ہی نظر آنے لگی ہیں اور ا س کے ایوان نمائندگان کے ارکان کو عمران خان پر پیار آنے لگا ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ خان صاحب سی پیک کے حق میں زیادہ پرجوش نہیں۔ وہ مغرب کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں۔ اْمید ہے کچھ عرصہ بعد سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ وقت کا طاقتور اور پراسرا ہاتھ خودبخود بہت سے پردے سرکا کر کئی راز طشت ازبام کر دے گا۔
ویسے بھی سعودی عرب اور ایران میں تعلقات بحال ہونے کے بعد پاکستان کو ایران سے بھی گیس، تیل اور بجلی کے علاوہ تجارت میں آسانی رہے گی۔ یہ بات بھی امریکہ آسانی سے ہضم نہیں کر سکتا کیوں ابھی تک اس نے ایران کو دشمن نمبر ون کی حیثیت میں رکھا ہوا ہے۔ اب گیم چینج ہو رہی ہے۔ چین، پاکستان، ایران اور روس کے درمیان تعلقات میں بہتری سے علاقے میں امریکی اثر و رسوخ ختم نہ سہی کم ضرور ہو سکتا ہے۔ امریکہ ٹھنڈے پیٹوں یہ برداشت نہیں کر پائے گا۔ اس لیے وہ موجود حکومت کو ہو سکتا ہے کہ اس غلطی یا حماقت کی سزا دینے کا فیصلہ کر لے جو پہلے ہی اپنی حماقتوں اور مہنگائی کی وجہ سے عوام میں غیر مقبول ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر بھی امریکی ہدایات کی روشن میں کر رہا ہے۔ ورنہ موجودہ حکومت تو آئی ایم ایف کے تمام مطالبات پورے کر چکی ہے۔ اس کا ثبوت عوام کی نکلنے والی چیخیں ہیں۔