عوام کیلئے خوشخبریوں کی ’’سیریز‘‘
وزیراعظم میاں شہبازشریف نے ملک میں گندم کی دو کروڑ 75 لاکھ ٹن ریکارڈ پیداوار پر اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدا کے فضل و کرم سے ملک میں اس سال گندم کی گزشتہ دس سال کی نسبت سب سے زیادہ پیداوار ہوئی ہے۔ انہوں نے تمام وفاقی اور صوبائی اداروں کو ہدایت کی کہ وہ گندم کی خریداری کیلئے اپنا ہدف بڑھائیں تاکہ گندم کی بلاتعطل فراہمی ممکن ہو سکے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم آفس کے میڈیا کی جانب سے جاری کئے گئے بیان کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے سرکاری سطح پر گندم کی خریداری سے متعلق جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے کسانوں کو معیاری بیج اور کھاد کی بلاتعطل فراہمی اور کسان پیکیج کے ساتھ ساتھ زراعت کی ترقی سے متعلق بروقت فیصلے کرنے سے گندم کی شاندار پیداوار کا حصول ممکن ہوا ہے جو ہماری بہترین گورننس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انکے بقول آئندہ حکومت اس سے بھی زیادہ پیداوار کیلئے حکمت عملی مرتب کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا‘ گزشتہ سال نااہل حکومت کی بدانتظامی کے باعث پاکستان گندم درآمد کرنیوالا ملک بن گیا تھا۔ آج ہم دوسرے ملکوں کو گندم برآمد کرنے کی پوزیشن پر آرہے ہیں۔ ہمارا آئندہ کا یہی ہدف ہے کہ ملک کو گندم برآمد کرنیوالا ملک بنانا ہے۔ انہوں نے گندم ذخیرہ کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی ہدایت بھی کی۔
ماضی قریب تک ہمارا یہی المیہ رہا ہے کہ ایک زرعی ملک ہو کر بھی ناقص حکومتی‘ انتظامی پالیسیوں کے باعث گندم اور دوسری اجناس کی پیداوار میں خودکفالت حاصل نہ کر سکے اور مہنگے داموں‘ غیرمعیاری گندم درآمد کرکے عوام پر مہنگائی کا اضافی بوجھ بھی ڈالا جاتا رہا اور انکی صحت مند زندگیوں کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا جاتا رہا۔ گزشتہ تین سال سے ملک پر ٹوٹی ہوئی کورونا وائرس کی افتاد نے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح یقیناً ہماری معیشت کو بھی سخت دھچکے لگائے ہیں اور اس عرصہ کے دوران صنعتیں بند اور کاروبار ٹھپ ہونے کے منفی اثرات ہماری اجناس بالخصوص گندم کی پیداوار پر مرتب ہوئے۔ کسانوں کو بیج‘ کھاد اور پانی جیسی سہولتیں بروقت دستیاب نہ ہو سکیں جس سے گندم کی کم بوائی کے باعث اسکی پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی نتیجتاً ملک گندم اور آٹے کی قلت کے بحرانوں کی زد میں رہا اور عوام کیلئے روٹی‘ روزگار کے علاوہ گندم‘ آٹے‘ سبزیوں اور دوسری اجناس کی قلت کے مسائل بھی سر اٹھاتے رہے جبکہ ذخیرہ اندوزوں نے گندم اور دوسری اجناس کی مصنوعی قلت پیدا کرکے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ اس میں یقیناً گورننس کی بدانتظامی کا بھی عمل دخل تھا کیونکہ اپنے مخالفین کے ساتھ سیاسی جھگڑوں میں پڑے اور انتقامی کارروائیوں میں مصروف حکومتی اکابرین نے عوام کے بنیادی مسائل کی جانب آنکھیں بند کئے رکھیں۔
ان عوامی مسائل کا یقیناً موجودہ حکمران اتحادیوں کو بھی سامنا ہے جبکہ انکے دور میں اب تک بالخصوص شتربے مہار مہنگائی میں عوام کو ریلیف ملنے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اورعوام کے اسی اضطراب کو ہی عمران خان نے اپنے حق میں کیش کرایا ہے اور حکومت آئندہ انتخابات کیلئے عوام کے پاس جانے سے بھی گریز کررہی ہے۔ ملکی معیشت کی خرابی اور عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل ہی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ اگر سیاسی عدم استحکام کی فضا میں ملک کی معیشت اور عوام کی حالت اسی طرح دگرگوں رہتی ہے تو حکمران اتحادیوں کیلئے آئندہ انتخابات میں اپنی محفوظ سیٹیں بچانا بھی مشکل ہو جائیگا جس کا یقیناً حکمران اتحادیوں کو ادراک بھی ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں اب حکومت کی جانب سے عوام کیلئے خوشخبریوں کی ’’سیریز‘‘ شروع کی گئی ہے۔ گندم کی بمپر پیداوار بھی عوام کیلئے ایک ایسی ہی خوشخبری ہے جس کی بنیاد پر انہیں آٹے اور گندم کی مسلسل فراہمی اور انکے نرخوں میں کمی کے ذریعے مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ عوام کیلئے بڑی خوشخبری چین کی جانب سے پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو اپریشنل کرنا اور اسکے ماتحت بعض نئے منصوبوں کا آغاز ہے جن سے پاکستان کے عوام کیلئے روزگار کے مواقع بھی نکل رہے ہیں اور پاکستانی برآمدات کی عالمی اور علاقائی منڈیوں تک رسائی اور فروغ کے راستے بھی نکل رہے ہیں۔
گزشتہ سالوں میں ہمیں توانائی کے بدترین بحران کا بھی سامنا رہا ہے جس کے باعث پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قلت بھی پیدا ہوئی اور انکے نرخ بھی بتدریج بڑھتے رہے۔ اگرچہ نرخوں میں اضافہ کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کی بحالی کیلئے اسکی من وعن قبول کی گئی کڑی شرائط ہیں تاہم پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قلت سے بھی مافیاز کو ان اشیاء کے نرخ بڑھانے کا موقع ملتا رہا ہے۔ اب حکومتی خوشخبریوں کے دور میں روس سے سستے نرخوں پر تیل کی فراہمی اور اسی طرح ترکمانستان سے سستی ایل پی جی کی درآمد کے آغاز کی خوشخبریاں بھی شامل ہیں۔ چین نے تو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے دورۂ بیجنگ کے بعد یہ خوشگوار اعلان بھی کر دیا ہے کہ خنجراب بارڈر تجارت کیلئے سارا سال کھلا رہے گا۔ اس سے یقیناً طور پر ملک میں تجارتی‘ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا اور ملکی زراعت و معیشت کی ترقی کے ساتھ ساتھ عوام کی خوشحالی کی منزل قریب آجائیگی۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی سی پیک کے حوالے سے منفی پالیسیوں کے باعث گزشتہ چار سال سے پاکستان چین سرحدی تجار بند رہی جو اب پاکستان چین باہمی تعاون سے کھلنا شروع ہوئی ہے۔
اگر حکومت کی جانب سے عوام کو دی جانیوالی یہ خوشخبریاں زمینی حقائق سے مطابقت رکھتی ہیں تو پھر یقیناً ہماری آزمائشوں کا دورانیہ ختم ہو رہا ہے اور ہم تمام درپیش چیلنجوں سے ایک باروقار اور خوددار قوم کے طور پر عہدہ برأ ہونے کی مضبوط پوزیشن پر آگئے ہیں تاہم اصل درپیش مسئلہ سیاسی عدم استحکام کا ہے۔ اگر سیاست دانوں کی باہمی چپقلش اور کھینچا تانی سے ملک میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام کو مزید فروغ حاصل ہوا تو قومی ترقی اور مضبوط معیشت و معاشرت کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔