ایک روز الیکشن کی تاریخ پر اتفاق نہ ہوسکا
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) حکمران اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کے معاملے پر اہم مذاکرات کا تیسرا دور ختم ہو گیا۔ مذاکرات میں حکومت کی جانب سے مسلم لیگ ن کے اسحاق ڈار‘ خواجہ سعد رفیق‘ اعظم نذیر تارڑ‘ سردار ایاز صادق کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی اور سید نوید قمر شامل تھے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کا وفد وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی‘ سینئر نائب صدر فواد چودھری اور سینیٹر علی ظفر پر مشتمل تھا۔ مذاکرات کے آغاز سے قبل چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی نے حکمران اور پی ٹی آئی مذاکرتی کمیٹی کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں اسحٰق ڈار، طارق بشیر چیمہ، نوید قمر، اعظم نذیر تارڑ اور یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر شریک ہوئے۔ پارلیمنٹ ہاو¿س پہنچنے پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج کے مذاکرات میں آپ سب کو پتا چل جائے گا کہ ہماری کیا شرائط ہیں، ہم پہلے سے میڈیا کو کیا بتائیں آج ہم حکومتی ٹیم سے کیا بات کرنے جا رہے ہیں۔ اس سوال پر کہ کیا دونوں جانب سے مذاکرات میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں؟ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری طرف سے کوئی غلطی نہیں ہوئی، ہم سنجیدگی اور ایمانداری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ سے بھی ملاقات کی جو مذاکرات کے مخالف ہیں۔ جمعے کو ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور کے دوران دونوں اطراف کے رہنماو¿ں نے اپنی تجاویز پیش کیں, پی ٹی آئی کے وفود نے اپنی قیادت اور حکومتی نمائندوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا کہا تھا۔ مذاکرات کے بعد اسحٰق ڈار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ منگل کے روز (آج) ہونے والی بات چیت مذاکرات کا تقریباً آخری دور ہوگا۔ خیال رہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات سپریم کورٹ کی تجویز پر گزشتہ ہفتے شروع ہوئے تھے جس سے طویل عرصے سے جاری تعطل کا خاتمہ ہوا تھا، مذاکرات کے دو دور کے بعد اب فریقین کے درمیان کل بروز منگل مذاکرات کا تیسرا اور آخری دور متوقع ہے۔ تاہم، مذاکرات کے مثبت نتائج برآمد ہونے کے امکانات بہت کم نظر آ رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے مذاکرات کے کامیاب نتائج کی راہ ہموار کرنے کے لیے 14 مئی تک قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ گزشتہ روز بھی عمران خان نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر کے حکومتی کے بد دیانت منصوبے میں نہیں پھنسے گی اور اگر سپریم کورٹ کے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی تو پارٹی سڑکوں پر نکلے گی۔ مذاکرات کے بعد حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اسحاق ڈار نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ بڑے مثبت طریقے سے بات چیت ہوئی ہے۔ دونوں سائیڈ پر اتفاق ہے کہ ایک ہی دن الیکشن سے بہتری ہو گی۔ دونوں فریقین نے تجاویز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا یہ بھی اتفاق ہے کہ نگران حکومت کی موجودگی میں ملک میں الیکشن ہوں گے، تیسرا اہم پوائنٹ تاریخ کا تعین ہے۔ دونوں جانب سے لچک دکھائی جا رہی ہے۔ دونوں فریقین نے اپنی اپنی تاریخ دی ہے ابھی ہم الیکشن کی ایک تاریخ پر نہیں پہنچے، الیکشن کی تاریخ پر بھی اتفاق رائے نہیں ہوا، اتفاق ہو چکا ہے کہ الیکشن ایک ہی دن ہوں گے۔ ملک میں ایک ہی دن الیکشن ہونے پر اتفاق ہونا بڑی کامیابی ہے۔ امید ہے دونوں فریق خلوص کے ساتھ چلیں گے تو تیسرا مرحلہ بھی طے ہو جائے گا۔ یوس ف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم نے کہا ہے جو بھی الیکشن جیتے گا نتائج تسلیم کریں گے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ فریقین نے لچک دکھائی تو آئندہ مذاکرات حتمی ہونگے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی مثبت سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی۔ عدالت نے تجویز دی تھی الیکشن کیلئے مشاورت سے کوئی راستہ نکالیں‘ ہم نے پی ڈی ایم کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھایا۔ پی ڈی ایم کا م¶قف تھا کہ اسمبلیوں کی تحلیل مدت پوری ہونے پر ہو، جے یو آئی کے علاوہ تمام جماعتیں مذاکرات پر آمادہ تھیں، اتفاق ہوا کہ مذاکرات کے عمل کو تاخیری حربے کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ خیبر پی کے اور پنجاب میں 90 دن میں الیکشن آئینی تقاضا ہے۔ مذاکرات کیلئے تین نشستیں ہوئیں۔ پی ڈی ایم چاہتی ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی روز الیکشن ہو۔ کوشش کی کہ اتفاق رائے کی طرف آگے بڑھیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن ہوں۔ انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ الیکشن ایک ہی دن کرانے پر اتفاق ہو گیا ہے اس سے پہلے پورے ملک میں نگران حکومتیں ہوں گی ہم نے کہا ایک طرف مذاکرات اور دوسری طرف گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ الیکشن اسمبلی تحلیل ہونے کے 60 دن بعد ہوں ہم نے تجویز دی کہ الیکشن شفاف ہوں نتائج کو قبول کرنے میں مشکل نہ ہو۔ جن حالات میں ہم پھنسے ہوئے ہیں اس کیلئے آئین میں ترمیم کی تجویز رکھی۔ 60 دن میں الیکشن کو آئینی کور دینا ہو گا اس کیلئے آئینی ترمیم ہو قومی اتفاق رائے کی خاطر ہم نے کافی لچک دکھائی نگران حکومت کی خواہش کو اہم تسلیم کیا‘ چاہتے ہیں۔ معاہدہ تحریری ہونا چاہئے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن کی تاریخ پر ہمارا اتفاق نہ ہو سکا‘ ہم چاہیں گے پنجاب کے الیکشن 14 مئی کو کرائے جائیں۔ ہماری تجاویز مثبت اور آئین کے دائرے کے اندر تھیں‘ ہم نیک نیتی سے کوشش کر رہے ہیں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں تحریری م¶قف پیش کریں گے۔ پنجاب کے الیکشن میں ہماری پیشرفت نہیں ہو سکی۔ خواہش ہے خیبر پی کے میں بھی الیکشن ہو۔ پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن میں تاخیر سے آئین متاثر ہوتا ہے۔ خواجہ آصف کے بیانات نے ماحول کو سازگار نہیں پیچیدہ بنایا۔ سپریم کورٹ سے گزارش کریں گے مذاکرات میں پیشرفت نہیں ہو سکی۔ ہم نے 14 مئی سے پہلے قومی، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی تحلیل کی تجویز دی جب یہ ہو جائے تو پھر الیکشن 60 دن کے اندر ہونے چاہئیں۔ آئینی کور دینے کیلئے تحریک انصاف قومی اسمبلی میں جانے کو تیار ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ دونوں طرف سے لچک دکھائی گئی ہے، آئندہ مذاکرات حتمی ہوں گے۔ پی ٹی آئی اور حکومتی اتحادی اپنی اپنی قیادت سے دوبارہ بات کریں گے۔