قومی اسمبلی کارروائی کی تفصیلات نہیں دے سکتے ، سپیکر آفس : عدالتی ریکارڈ طلب کریں : خواجہ آصف
اسلام آباد (نامہ نگار + نوائے وقت رپورٹ) سپیکر آفس نے سپریم کورٹ رجسٹرار کو قومی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ دینے سے انکار کردیا۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے سپیکر کے خط پر قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کیا گیا تھا۔ تاہم رجسٹرار آفس کے زبانی احکامات پر سپیکر آفس نے متعلقہ ریکارڈ دینے سے انکار کردیا ہے۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس کی جانب سے قومی اسمبلی کے 5 اجلاسوں کی کارروائی کا ریکارڈ تحریری طور پر طلب کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں رجسٹرار آفس نے سپیکر آفس سے قائمہ کمیٹی برائے فنانس کے اجلاس کا ریکارڈ بھی مانگ لیا۔ رجسٹرار آفس نے 6 ، 10، 17 ، 26 اور 27 اپریل کا قومی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ سپیکر آفس سے مانگا ہے جبکہ سپیکر آفس کی جانب سے تاحال متعلقہ ریکارڈ رجسٹرار سپریم کورٹ کو فراہم نہیں کیا گیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عدلیہ کوشش کر رہی ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی اپنی مدت پوری نہ کرے، ہمیں اپنے ادارے کے دفاع کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا۔ جبکہ قومی اسمبلی نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو کے حوالے سے خصوصی کمیٹی کے قیام کی تحریک منظور کرلی ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں نکتہ اعتراض پر خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اس ایوان نے جتنی قوم و ملک کی خدمت کی، کسی اور ادارے نے نہیں کی۔ آج ایک ادارہ ہم سے اس ایوان کی کارروائی کی تفصیلات طلب کر رہا ہے، ایک نہیں سو دفعہ پروسیڈنگز طلب کریں۔ ہماری کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی، ہماری کارروائی راز نہیں ہوتی۔ میں بول رہا ہوں، یہ ٹی وی پر سنی جا رہی ہے۔ ہمیں سپریم کورٹ کا احترام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ دو ججوں نے کیس سے خود کو الگ کرلیا ہے اور جب دوبارہ بینچ بنایا گیا تو پھر ان ہی دو ججوں کو شامل کرلیا گیا، بلکہ اسی بینچ کو برقرار رکھا گیا اور ان سے تین دو کا فیصلہ کروالیا۔ ان کا کہنا تھا میری سپیکر سے درخواست ہے کہ وہ بطور کسٹوڈین آف دی ہاﺅس سپریم کورٹ کو خط لکھیں اور اس کارروائی کی تفصیلات طلب کریں، یہ ہمارا حق ہے۔ یہ ادارہ آئین اور عوام کی بالادستی کا علمبردار ہے، اس کا محافظ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں بیٹھے 15 آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں، 15 آدمیوں میں سلوک نہیں ہے، ہمیں مذاکرات کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے، ہم مذاکرات کر رہے ہیں۔ عدلیہ ہمیں بتاتی ہے کہ مذاکرات کریں، پہلے وہ خود مذاکرات کریں، پہلے اپنی تو بیٹھ کر اندر پنجائیت لگائیں، اس کے بعد ہمیں ہدایات جاری کریں۔ مذاکرات، پنجائیت، محفلیں لگانا یا ہدایات دینا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔ آئین کے تحت ان کے فرائض میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ وہ پنچائیت لگائیں گے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ اس طرح نہیں ہوتا جس طرح آج ہو رہا ہے۔ ہمیں اپنے ادارے کا دفاع کرنا پڑے گا۔ ایک سیاسی پارٹی کو پہلے 2018 ءمیں سہولت کار ملے، انہیں اب پھر سہولت کار مل گئے ہیں۔ ایوان میں بیٹھے ارکان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس سہولت کاری کے آگے دیوار بن جائیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ یہ وزیر اعظموں کی گردنیں لینے کا رواج ختم ہونا چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو انہوں نے پھانسی دی، دو وزارائے اعظم کو نمائندگی کے حق سے محروم کیا، نواز شریف کو تاحیات نا اہل کردیا گیا، ہمیں اپنے وزیراعظم کا تحفظ کرنا چاہیے، ہمیں چاہیے کہ اپنے اختلافات بھلا کر اس کا تحفظ کریں، وہ کسی بھی جماعت کا ہو، ہمیں اپنے ادارے کے وقار کے لیے یہ سیاسی جنگ لڑنی پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی جنگیں لڑتے ہیں، ہمیں کئی مرتبہ گھر بھیجا گیا، اس ادارے کی گردن لی گئی، اس ادارے کا خون ہوا، کیا اس کا کوئی حساب دے گا۔ جن لوگوں نے آئین بنانے کا اختیار ایک وردی والے کو دیا، پرویز مشرف کو آئینی ترمیم کرنے کی اجازت دی۔ ایک شخص نے اپنی ذاتی غرض کے لیے آئین توڑ دیا اور 10 سال مسلط رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی ادارے نے جمہوریت یا آئین کا خون نہیں کیا، یہ فرد واحد تھے جن کی اقتدار کی خواہش تھی۔ جسٹس منیر سے لے کر ذوالفقار بھٹو کے کیس تک، اس کے بعد لاتعداد کیس ہیں، ان کا کوئی حساب دے گا۔ کیا ان کیسز کی پروسیڈنگز منگوائی جائیں گی۔ سپریم کورٹ بتائے ان پروسیڈنگز کے حوالے سے اپنا ماضی پاک صاف کرنے کے لیے۔ اپنی تاریخ درست کرنے کے لیے کیا کرے گی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ماضی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) باہم دست و گریبان تھے، پھر بےنظیر شہید اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت کیا، ہمارے سیاسی ماحول میں دانش مندی آئی، اس کے بعد 2 اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی، تیسری اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے لیکن یہ ادارہ کوشش کر رہا ہے کہ مدت پوری نہ ہو، یہ کہہ رہا ہے کہ فلاں تاریخ کو الیکشن کرا لو، فلاں تاریخ کو الیکشن کرالو۔ یہ ایوان آئین کا محافظ ہے، جو آئین حکم دیتا ہے، وہ ہوگا، آئین سے ماورا کوئی چیز نہیں ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت حساب دیئے ہیں، اب ہمیں بھی حساب دیا جائے۔ ہم عوام کو حساب دیتے ہیں، ان کے ہاتھ ہمارے گریبان پر ہوتے ہیں، ہم سے وہ ہماری خدمت کا حساب مانگتے ہیں، دو چھٹیاں ہوتی ہیں تو ہم اپنے حلقوں میں واپس چلے جاتے ہیں، عوام سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ جب نکلتے ہیں تو ان کے آگے پیچھے پروٹوکول ہوتا ہے، شاہراہ دستور پر ٹریفک روک دیا جاتا ہے، کیا اس سڑک پر کسی وزیر کے لیے کبھی ٹریفک روکا گیا، ہماری تنخواہ صرف ایک لاکھ 68 ہزار روپے ہے، ان سے پوچھا جائے ان کی تنخواہ کتنی ہے، اس کے علاوہ تاحیات تمام مراعات بھی ملتی ہیں، ان کو پلاٹ بھی ملتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے اور میرے والد کو اسمبلی میں آتے ہوئے 72 سال ہوگئے ہیں، ایک پلاٹ نہیں ملا۔ اگر ان کو بہتر سال ہوجاتے تو گیارہ، بارہ پلاٹ ہوتے، 72 پلاٹ ہوتے۔ اس کے بعد اسی طبقے اور برادری کے لوگ ایک کروڑ 20 لاکھ روپے میں سیاسی جماعتوں کے ٹکٹوں کے پیسے پکڑ رہے ہیں۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ہمیں عدلیہ کی تاریخ کا حساب دیا جائے، یہاں اسمبلی میں خصوصی کمیٹی بنائی جائے، ایک ہاﺅس کمیٹی بنائی جائے جو ذوالفقار بھٹو کی شہادت، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کا اور آئین کی پامالی کا عدلیہ سے حساب لے، اس عدلیہ سے حساب لے، یہ اپنے ماضی کا حساب دے، ہم اپنے آبا و اجداد کا حساب دے رہے ہیں، ہر روز دیتے ہیں۔ اسلم بھوتانی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سابق جج کا کیا کام ہے کہ وہ ٹکٹیں دلوائے۔ ہماری عزت کریں گے تو ہم بھی کریں گے۔ ہم ایوان کی کارروائی نہ دینے کا واضح اعلان کریں۔ جتنی چاہیں توہین عدالت لگا دیں۔ ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی محمد ابوبکر نے کہا کہ مختلف اوقات میں سیاستدانوں کی آڈیو گفتگو لیک ہوتی رہی تو سزائیں بھی ملتی رہیں۔ آج ایک جج کی گفتگو آڈیو ٹیپ کی شکل میں ہے اس پر خصوصی کمیٹی بنائی جائے۔ ججوں کی آڈیو ٹیپس پر فرانزک کرایا جائے۔ ہماری اور ان ججوں کی تنخواہوں کا موازنہ کرلیا جائے۔ چیئرمین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ اگر کسی بھی عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لینے والے سے پی اے سی پوچھ سکتی ہے تو ججوں سے کیوں نہیں پوچھ سکتی، آئین کے مطابق کوئی بھی عدالت اس پارلیمان کی کارروائی نہیں مانگ سکتی۔ پارلیمان کی کوئی بھی قائمہ کمیٹی کسی سے بھی ریکارڈ مانگ سکتی ہے۔ اگر کوئی قائمہ کمیٹی کو ریکارڈ نہیں دے گا تو اسے بلایا بھی جاسکتا ہے اور سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ میں نے آج سپریم کورٹ کے پرنسپل اکاﺅنٹنگ آفیسر کو بلایا ہے۔ اگر سپریم کورٹ کے پرنسپل اکاﺅنٹنگ آفیسر نہ آیا تو گرفتار کرکے پی اے پی میں پیش کرنے کا حکم دوں گا۔ وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ شازیہ مری نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور یہ طاقت ہمیں اس آئین نے دی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر ابھی انصاف نہیں مل سکا۔ ججز کو اپنے فیصلوں پر بات کرنی چاہئے۔ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ کی کارروائی ہم کسی کو نہیں دے سکتے۔ سابق چیف جسٹس کا بیٹا ایک کروڑ 20 لاکھ روپے ٹکٹ دلوانے کیلئے مانگتا ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ ٹینس کے نوجوان کھلاڑیوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کو کوئی ڈکٹیٹ کرے گا یا ایسے معاملات میں شامل کرے گا تو ہم آئین کے مطابق اس کا دفاع کریں گےہم اپنے اختیارات کو استعمال کریں گے۔ چیئرمین پبلک اکا¶نٹس کمیٹی نور عالم نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی پی اے سی میں عدم حاضری پر وارنٹ جاری کرنے کا اعلان کر دیا۔ نور عالم نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے کہا کہ آئین مجھے اجازت دیتا ہے کہ سپریم کورٹ کا آفیسر نہیں آتا تو وارنٹ جاری ہوں گے۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات سے متعلق خصوصی کمیٹی کے قیام کی تحریک منظور کر لی۔ تحریک جے یو آئی ف کی رکن شاہدہ اختر علی نے پیش کی۔ شاہدہ اختر علی نے کہا کہ کمیٹی ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو لیک کی تحقیقات کرے۔ خصوصی کمیٹی تشکیل دے۔ ایوان آپ کو اختیار دیتا ہے کہ آپ کمیٹی میں ارکان کو شامل کریں۔
خواجہ آصف