• news

بھارت میں مذہبی آزادیوں سے متعلق امریکی کمیشن کی رپورٹ

بھارت میں بالعموم تمام اقلیتیں اور بالخصوص مسلم کمیونٹی مسلسل ہندو انتہا پسندوں کے مظالم کے نشانے پر ہے۔ اقلیتوں کے خلاف ہونے والے انتہا پسندی کے واقعات میں ہونے والا اضافہ یہ بتاتا ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جارہی۔ اسی صورتحال کو بنیاد بنا کر امریکی حکومت کے ایک کمیشن نے بھارت کو بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے یہ مطالبہ پہلی بار نہیں کیا بلکہ وہ گزشتہ چار برس سے لگاتار یہی سفارش کررہا ہے ور اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک بدستور خراب ہوتا جا رہا ہے۔ 2014ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت بنی تو نریندر مودی کو وزیراعظم منتخب کیا گیا اور تب سے اب تک بھارت میں اقلیتوں کے مسائل مسلسل بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب ملک کے کسی نہ کسی حصے میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیزی کوئی واقعہ پیش نہ آتا ہو۔
سوموار کو جاری ہونے والی یو ایس سی آئی آر ایف کی سالانہ رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ سے کہا گیا ہے کہ وہ بھارت کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کرے جن سے متعلق مخصوص خدشات پائے جاتے ہیں۔ اس فہرست میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہاں کی حکومتیں ایک منظم طریقے سے مذہبی آزادیوں کو پامال کرتی ہیں۔ اس فہرست میں جو ملک شامل ہوتے ہیں ان پر پھر معاشی پابندیاں بھی لگائی جاتی ہیں۔ امریکی کمیشن کی طرف سے بھارت کو اس فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ 2020ء میں بھی کیا گیا تھا جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت کے بارے میں یہ تاثر پہلی بار پیدا نہیں ہوا کہ وہ مسلسل مذہبی آزادیوں کو پامال کررہا ہے۔ یوں یہ صورتحال امریکا سمیت دنیا کے تمام اہم ممالک اور ہر بین الاقوامی ادارے کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔
امریکا میں یو ایس سی آئی آر ایف ایک اہم ادارہ ہے۔ اس کمیشن کے ارکان کا تقرر صدر اور کانگریس میں موجود پارٹیوں کے رہنما کرتے ہیں۔ کمیشن کا کام دنیا بھر میں مذہبی آزادیوں کا جائزہ لینا ہے۔ کمیشن نے حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے چین، ایران، میانمار، پاکستان، روس اور سعودی عرب سے متعلق اقدامات کی توثیق کی اور سفارش کی کہ محکمہ خارجہ بھارت، نائجیریا اور ویتنام سمیت کئی دیگر ممالک کو بھی اس فہرست میں شامل کرے۔ کمیشن کی سالانہ رپورٹ میں بھارتی ریاستوں میں مسلمانوں اور عیسائیوں پر تشدد اور ان کی املاک کی تباہی کی جانب اشارہ کیا گیا اور مودی کی ہندو قوم پرست بی جے پی کے ارکان کے تبصروں اور سوشل میڈیا پوسٹس کے لنکس دیے گئے۔ کمیشن نے کہا کہ امتیازی قوانین کے مسلسل نفاذ کی وجہ سے متشدد ہجوم اور ہندو شدت پسندوں کی جانب سے تشدد بڑے پیمانے پر پروان چڑھا ہے اور ان انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
مذکورہ کمیشن بھارتی حکومت کے جن اقدامات کی طرف اشارہ کررہا ہے طاقتور ممالک اور ادارے ان سے پہلے بھی واقف ہیں تاہم اس سلسلے میں کوئی ٹھوس کارروائی بوجوہ نہیں کی جارہی۔ بہت سے ممالک اور ادارے اپنے ذرائع کی مدد سے ہر سال ایسی رپورٹیں تیار کرتے ہیں جن سے انھیں پتا چلتا رہتا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کو کن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے اور سلسلے میں حکومت کیا کردار ادار کررہی ہے لیکن اس کے باوجود انسانی حقوق کی پامالی پر صرف جمع جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھی جو کچھ کیا جارہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور پاکستان بار بار بین الاقوامی برادری کی توجہ اس طرف دلاتا رہتا ہے لیکن اس حوالے سے بھی عالمی ضمیر خوابیدہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا جاتا ہے کہ مذمتی بیانات جاری کر کے بہت سے ممالک اپنے عوام کی نظروں میں اچھا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
یو ایس سی آئی آر ایف کی سالانہ رپورٹ میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ اس کی تصدیق نہ ہوسکے۔ بھارت میں اقلیتوں کا تناسب تقریباً بیس فیصد ہے اور آبادی کے اس قابلِ ذکر حصے کو روزانہ کی بنیاد پر جو کچھ سہنا پڑتا ہے وہ کئی حوالے سے ناقابلِ بیان ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے بھارت کو اس لیے بھی کھلی چھٹی دی جاتی ہے تاکہ چین اور روس کے مقابلے میں اسے ایک مستحکم قوت بننے کا موقع مل سکے۔ علاوہ ازیں، تیزی سے ڈیڑھ ارب کے ہندسے کی طرف بڑھتی ہوئی بھارت کی آبادی کی وجہ سے اسے ایک بڑی منڈی کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن طاقتور ممالک اور ادارے یہ بات بھول رہے ہیں کہ اگر بھارت میں اقلیتیں مسلسل مسائل کا شکار رہیں گی تو اکثریت بھی سکون میں نہیں رہ سکے گی۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اقلیتیں اپنے جان و مال کی حفاظت کے لیے بہت سے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جائیں گی جس کے بعد نہ چاہتے ہوئے طاقتور ممالک اور اداروں کو بھارت کے خلاف وہ اقدامات کرنا ہوں گے جن کی مدد سے وہاں اقلیتوں خود کو محفوظ محسوس کریں گی۔

ای پیپر-دی نیشن