2010ء سے 2021ء تک: آڈٹ کا نوٹس رجسٹرار سپریم کورٹ 16مئی کو پی اے سی طلب
اسلام آباد (نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے سپریم کورٹ کے آڈٹ کے معاملے پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو 16 مئی کوطلب کرلیا ہے۔ طلبی کے لیے نوٹس بھجوا دیا گیا ہے۔ چیئرمین پی اے سی نور عالم کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی پر ہاتھ ڈالتا ہوں کہا جا تا ہے ہتھ ہولا رکھو۔ اس پر حکم امتناعی جاری نہیں ہوسکتا اگر ہوا تو دوبارہ طلب کروں گا۔ بدھ کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کے زیرصدارت منعقد ہوا جس میں دیگر معاملات کے علاوہ سپریم کورٹ کے آڈٹ کے معاملے پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ اراکین کمیٹی کے تفصیلی سوال و جواب کے بعد کمیٹی نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو طلب کرلیا۔ چیئرمین پی اے سی کے مطابق سپریم کورٹ کے 11-2010 سے 21-2020 تک کے آڈٹ کا نوٹس جاری کیا گیا ہے اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو 16مئی کو اجلاس میں طلب کیا گیا ہے۔ چیئرمین پی اے سی نور عالم خان کا کہنا تھا کہ آڈیٹر جنرل صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، وفاقی وزرائ، ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کا تقابلی جائزہ پیش کریں۔ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر ملک مختار نے کہا کہ اس پر تو حکم امتناعی جاری ہو جائے گا۔ جس پر چیئرمین پی اے سی نے جواب دیا کہ اگر حکم امتناعی آیا تو میں دوبارہ طلب کروں گا۔ آڈیٹر جنرل کو بھی صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، وفاقی وزرائ، ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کا تقابلی جائزہ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ میں جب بھی کسی بھی ڈالتا ہوں مجھے کہا جاتا ہے کہ ہاتھ ہولا رکھیں۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ آج اگر رجسٹرار سپریم کورٹ نہ آئے تو وارنٹ جاری کروں گا۔ دریں اثنا پی اے سی اجلاس میں وزارت صنعت و پیداوار کی آڈٹ رپورٹس 20 ۔ 2019 کا جائزہ لیا گیا۔ وزارت صنعت و پیداوار کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیتے ہوئے سیکرٹری صنعت و پیداوار نے بتایا کہ فرٹیلائزر سیکٹر کیلئے گیس قیمتوں پر نظرثانی کی جائے گی، کچھ یوریا پلانٹس کو 6 ڈالر ایم ایم بی ٹی یو میں گیس مل رہی ہے۔ پی اے سی نے کھاد بنانے والی کمپنیوں کی قیمت کا آڈٹ کرنے کا حکم دیا اور آڈیٹر جنرل کو ہدایت کی کہ نیب اور ایف آئی اے کے تعاون سے یہ آڈٹ مکمل کیا جائے۔ قانون نے مجھے یہ حق دیا ہے کہ میں چاہوں گا کہ میڈیا کے سامنے آئے اور عام لوگوں کو پتاچلے کہ صدر مملکت، وزیراعظم، وزرائ، چیف جسٹس اور ججز کو دوران ملازمت کیا تنخواہیں و مراعات ملتی ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد کیا مراعات ملتی ہیں، کتنے پلاٹس ملتے ہیں اور کہاں پر غلطیاں ہیں تاکہ ہم اس بارے میں سفارشات دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر یا کسی اور ادارے کے ملازمین کو تنخواہوں و مراعات میں اگر کچھ غلط ہوگا تو میں کہوں گا کہ وہ وہاں کٹوتی کریں، نہ خود سے آپ تنخواہیں بڑھا سکتے ہیں اور نہ ہی مراعات دے سکتے ہیں۔ نور عالم خان نے کہا کہ قانون اور رولز اینڈ پروسیجر میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے لہذا اس کے تحت چلیں گے۔ ہم کوئی غیر قانونی کام نہیں کررہے اور نہ ہی میرے سیاسی عزائم ہیں۔ آج مجھے اختیار ملا ہے تو میں اسے استعمال کررہا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان آڈٹ کے لیے اپنا ریکارڈ میرے ساتھ نہیں بلکہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان، حکومت پاکستان کے ساتھ شیئر کرے گی اور پھر اس بارے میں عوام کو بتایا جائے گا کہ کس نے کتنے پلاٹ لیے، باہر اخراجات کتنے کیے، گاڑیاں کتنی لیں اور کس نے کیا کیا مراعات لیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پی اے سی نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو نوٹس جاری کردیا ہے جس میں رجسٹرار کو 16 مئی کو طلب کیا ہے اور میرا نہیں خیال کہ سپریم کورٹ یا سپریم کورٹ کے ججز اس اقدام پر خفا ہوں گے۔ کیونکہ وہ خود آئین کی پاسداری کرنے والے ہیں۔ اگر وہ خود رولز اور ریگولیشنز کا خیال کریں گے تو میرے خیال میں اس پر نہ تو حکم امتناعی جاری ہوسکتا ہے اور نہ سپریم کورٹ حکم امتناعی دے گی اور نہ دینا چاہیے۔ نور عالم خان کا کہنا تھا کہ میں عوام کا نمائندہ ہوں اور یہ تنخواہ دار سول سرونٹ ہیں جو حکومت اور عوام کے ملازم ہیں، بادشاہ کوئی بھی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں پی اے سی کے اجلاس میں وزیراعظم سستا آٹا سکیم میں20 ارب روپے کی بدعنوانی کے الزامات سامنے آنے پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو آٹا سکیم کا آڈٹ کرنے کی ہدایت جاری کی گئی۔ جبکہ یوریا اور گاڑیوں کے معاملے پر دو ذیلی کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزیراعظم کی مفت آٹا سکیم کے آڈٹ کی ہدایت کر دی۔ پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ یہ معاملہ ایک سینئر سیاستدان نے اٹھایا ہے‘ بیس ارب روپے کی بے ضابطگی کا آڈٹ کیا جائے۔ اجلاس میں پی اے سی نے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سے ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کا ریکارڈ بھی مانگ لیا ہے۔