• news

توانائی بحران کا واحد حل------- ڈیموں کی تعمیر

 ڈیموں کی افادیت سے دنیا بھر میں انکار نہیں کیا جاتا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایک مخصوص لابی جو غیر ملکی آقائوں کے اشاروں اور پے رول پر ہونے کی وجہ سے آبی ذخائر کی نہ صرف مخالفت کرتی ہے بلکہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے خدانخواستہ تمام صوبوں کی عوام ڈیموں کی مخالف ہو حالانکہ حقیقت میں چند افراد کا ٹولہ ہے جو غیر ملکی آئی پی پیز کے کاروبار کے تحفظ و فروغ کے لئے ڈیموں کی مخالفت کرتا ہے۔بدقسمتی سے فیلڈ مارشل ایوب خان مرحوم کے دور حکومت کے بعد پاکستان میں کوئی ڈیم نہیں بنا جس کی وجہ سے آج پاکستان توانائی کے بدترین بحران کا شکار ہے۔ بجلی بنانے کے لئے گیس کا استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ فرنس آئل کے استعمال کے لئے حکومت کے پاس رقم نہیں ہے۔ گیس بجلی بنانے میں استعمال ہونے سے ملک بھر میں گھریلو صارفین شدید ترین مشکلات کا شکار ہوچکے ہیں۔ مہنگی ترین بجلی کی فراہمی بھی حکومت کے لئے مشکل ہوچکی ہے۔
 ڈیم فنڈ ریزنگ مہم قوم کے بہترین مفاد میں تھی اور اس سے قطع نظر کہ تخمینے کے حساب سے رقم نہیں مل سکی لیکن یہ ملک کی بنیادی ضرورت ہے کہ جلد ازجلد بڑے ڈیم تعمیر کئے جائیں۔ چند لوگ اپنی محدود سوچ و صوبائی لسانیت کی بنیاد پر اپنے غیر ملکی آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنیکی مذموم کوشش کررہے ہیں۔ میرا قومی فریضہ ہے کہ میں ڈیموں کی افادیت سے محب وطن 22 کروڑ عوام کو ایک بار پھر آگاہ کروں حالانکہ اس موضوع پر میں ہر فورم پر بات کرتا ہوں اور ہر ہر سطح پر میری کوشش رہی ہے کہ کالا باغ ڈیم سمیت بڑے آبی ذخائر کی افادیت وضرورت سے لوگوں کو آگاہ کرتا رہوں۔ میاں نوازشریف کی گزشتہ حکومت نے وفاقی بجٹ میں 2 کھرب 58 کروڑ روپے آبی ذخائر کی تعمیر کے لئے مختص کئے ۔ یہ خوش آئند بات تھی اور جب تک چھوٹے بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کو اولین ترجیح نہیں دی جاتی اس وقت تک ملک میں سستی بجلی اور وافر پانی دستیاب نہیں ہوسکتا۔ حکومت زیادہ سے زیادہ چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کوترجیح دے۔ مہنگی بجلی (تھرمل پاور) سے مہنگائی میں کسی بھی صورت میں کمی نہیں آسکتی بلکہ فرنس آئل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلاجارہا ہے جس سے عالمی مارکیٹ میں ہماری مصنوعات کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔  ہم نے جس طرح تھرمل منصوبے غیر ملکی کمپنیوں سے لگوائے اس کے بجائے اگر ہم غیر ملکیوں سے B.O.T.کی بنیاد پر چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کراتے تو ملک کی تقدیر بدل چکی ہوتی۔ جو ڈیم 20سال پہلے 5ارب میں بن سکتا تھا آج وہ 100ارب میں بنے گا۔ ہمارے حکمرانوں نے تو وہ پروجیکٹ لگائے جن میں انہیں بھاری کمیشن ملا ۔ اسی لئے شاید ڈیم نہیں بنے کہ ان منصوبوں میں کمیشن کا امکان کم تھا۔اگر B.O.T.کی بنیاد پر موٹرو یز بنائے جاسکتے ہیں تو چھوٹے بڑے ڈیم کیوں نہیں بنائے جاسکتے؟ ہم نے سستی بجلی اور وافر پانی کی دستیابی کو اولین ترجیح رکھ کر زرعی و صنعتی انقلاب لانے کے بجائے زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیاں بنانا شروع کردیں۔ یاد رکھیں کہ رہائشی کالونیاں زرعی زمینوں پر تعمیر کرکے ہم نے ملک کا نقصان ہی کیا ہے۔ رہائشی کالونیاں یا صنعتی زون تو غیر آباد بنجر زمینوں پر بننے چاہئیں۔ آباد ‘ ذرخیز زمینوں کا غیر زرعی استعمال ملک کو خوراک کی شدید قلت کی جانب گامزن کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ ماحولیاں کے معاملے میں بھی ملک خطرات کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے۔
میں نے کئی بار لکھا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے قبل سندھ میں خیرپورمیرس‘ سہون شریف‘ جامشوروسمیت 3چھوٹے ڈیم بنائے جائیں اور جب یہ تینوں چھوٹے ڈیم بن کر پانی سے بھرجائیں گے تو سندھ کی سال بھر کی ضرورت کا پانی سندھ میں ہی موجود ہوگا اور فصل ربیع و فصل خریف میں سندھ اپنی ضرورت کے مطابق پانی ان 3چھوٹے ڈیموں سے لیتا رہے گا۔ اس کے بعد کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا جائے اور پھر سندھ کو کسی صورت اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ ایک سادہ سی بات ہے کہ پانی ہمیشہ اونچائی پر اسٹور کیا جائے گا تاکہ بوقت ضرورت کم اونچائی پر پہنچایا جاسکے ۔ وفاق اپنے خرچ پر سندھ کی تمام چھوٹی بڑی نہریں پختہ کرے تاکہ سیم و تھور سے بچنے کے ساتھ ساتھ پانی کا ضیاع روکا جاسکے۔ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ینگلہ دیش کی طرح فلڈ کینالز تعمیر کی جائیں جو سیلابی پانی سے تھر‘ چولستان‘ بہاولپور اور دیگر ریگستانی علاقوں کو سیراب کرکے پانی کے زرعی استعمال کو ممکن بناسکیں۔
شمس الملک کا نام سنتے ہی ذہن میں کالا باغ ڈیم کا نام آجاتا ہے کیونکہ ان کی وجہ شہرت ہی کالا باغ ڈیم ہے اور کالا باغ ڈیم کے سب سے بڑے حمایتی ہیں اور وہ یہ حمایت اعداد و شمار اور دلائل کی قوت سے لیس ہوکر کرتے ہیں۔ شمس الملک کا تعلق خیبرپختونخواہ سے ہے اور وہ واپڈا کے سابق چیئرمین‘ کالا باغ ڈیم کے پروجیکٹ ڈائریکٹر اور سابق نگراں وزیراعلٰی خیبرپختونخواہ بھی رہے۔ اس لئے ان کی رائے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔  ہندوستان کی جانب سے پاکستان کا پانی بند کیا گیا تو ان دونوں ممالک کے درمیان تصفیے کے لئے ورلڈ بینک نے فیصلہ کروایا اور کالا باغ ڈیم بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اس کے لئے فنڈز بھی رکھے گئے ۔ کالا باغ ڈیم سب سے بہترین پروجیکٹ ہے۔ جب کالا باغ ڈیم کی فزیبلٹی بن گئی تو کہا گیا کہ اس پر اتفاق رائے نہیں ہے اس لئے اس کا متبادل ڈھونڈا جائے گا۔پنتیس سال گزر جانے کے باوجود اس کا متبادل نہیں ملا اور نتیجہ یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ سے کارخانے بند اور عوام بے روزگار ہوگئے۔ پچھلے پچاس سال میں چین نے 22 ہزار ڈیم بنائے ہیں‘ امریکہ نے ساڑھے چھ ہزار ڈیم بنائے ہیںاور بھارت نے ساڑھے چار ہزار ڈیم بنائے ہیں اور اگر ایک ڈیم سے اتنا مسئلہ ہوتا تو امریکہ سپر پاور نہ ہوتا‘ چین شکست و ریخت سے دوچار ہوجاتا۔ باقی دنیا ڈیم بناکر ترقی کر رہی ہے لیکن ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ ایک ڈیم بنانے سے خدانخواستہ پاکستان ٹوٹ جائے گا‘ حیرت و افسوس کا مقام ہے۔ڈیموں کی تعمیر اشد ضروری ہے اس سے سستی بجلی پیدا ہوگی اور یقینی طور پر مہنگائی میں کمی آئیگی۔ صنعتوں کو وافر سستی بجلی ملنے سے عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں مسابقت کی جاسکے گی اور وافر سستی بجلی ہونے سے نئی انڈسٹری قائم ہوگی جس سے بے روزگاری میں یقینی طور پر کمی واقع ہوگی اور عوام کا معیار زندگی بلند ہوگا۔ اسی طرح زراعت کو سستی بجلی ملنے سے کسان خوشحال ہوگا اور ڈیموں کے باعث وافر پانی کی دستیابی سے پاکستان کی لاکھوں ایکڑ ہموار غیر آبادزمین بھی آباد ہوجائیگی اور ملک میں زرعی وصنعتی انقلاب برپا ہوگا۔تربیلا اور منگلا ڈیموں کی گنجائش 55%رہ گئی ہے اور ہم نے کوئی متبادل بندوبست نہیں کیا۔ بہرحال حکومت کی اس سے متعلق ترجیحات درست ہونی چاہئیں ۔5ڈیموں کی جلد ازجلد تعمیر ہونی چاہئے۔  اگر ہم نے اس متعلق درست فیصلوںمیں مزید تاخیر کی تو تربیلا اور منگلا کی کچھ عرصے بعد گنجائش ایک چوتھائی رہ جائے گی اور ملک قحط سالی کا شکار ہوسکتا ہے۔بے نظیر بھٹو شہید کالا باغ ڈیم کا نام تبدیل کرکے اس کی تعمیر کے لئے رضامند ہوگئی تھیں۔ اسی طرح کالا باغ ڈیم کی نئے نام سے تعمیر کے بعد اس کی رائلٹی میں سے خیبرپختونخواہ کو کچھ حصہ دے دیں تو اعتراض ختم ہوجائے گا۔

ای پیپر-دی نیشن