سینٹ : سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظر ثانی بل منظور ، اپوزیشن کا احتجاج
اسلام آباد (وقائع نگار) سینٹ نے اپوزیشن کے شدید احتجاج کے دور ان سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات پر نظرِ ثانی کا بل منظور کرلیا، بل کے حق میں 32اور مخالفت میں 21ووٹ آئے جبکہ حکومت کی طرف سے بل پر سپلیمنٹری ایجنڈا لانے پر اپوزیشن نے ایوان میں ہنگامہ آرائی،شور شرابہ کرتے ہوئے چیئر مین سینٹ کے ڈائس کا گھیراﺅ کرلیا ،ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کر نے لگا،چیئرمین سینیٹ کوسینیٹ سیکیورٹی طلب کر نا پڑی ۔ جمعہ کو اجلاس کے دور ان مذکورہ بل ضمنی ایجنڈے کے ذریعے سینیٹر عرفان صدیقی نے ایوان میں پیش کیا تاہم اپوزیشن کی جانب سے بل پیش کیے جانے پر شدید احتجاج کیا گیا، بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں32 اور مخالفت میں21 ووٹ آئے جس کے بعد بل کو بھی اکثریت سے منظور کرلیا گیا۔ قبل ازیں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے ضمنی ایجنڈا پیش کیے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج شروع کردیا گیا۔احتجاج پر چیئرمین سینیٹ نے وزیر قانون سے دریافت کیا کہ یہ بل ایوان میں کیوں پیش کیا گیا تاہم اپوزیشن نے اعظم نذیر تارڑ کو بولنے کا موقع نہ دیا، جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ اپنی دکان بند کریں گے تو میں بات کروں گا ورنہ بل ہر صورت میں پاس ہوگا، جس پر چیئرمین سینیٹ نے انہیں کہاکہ دھمکی نہ دیں دلیل دیں۔ وزیر قانون نے کہا کہ آئین کی دفعہ188میں نظرِثانی کے اختیار کا ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے ایوان میں آئین پاکستان کی دفعہ 188 کو پڑھ کر سنایا کہ ''مجلس شوری(پارلیمنٹ) کے کسی ایکٹ کے اور عدالت عظمی کے وضع کردہ کسی قواعد کے احکام کے تحت عدالت عظمی کو اپنے صادر کردہ کسی فیصلے یا دیئے ہوئے حکم پر نظرِ ثانی کا اختیار ہوگا''۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے قومی اسمبلی میں آئین کے آرٹیکل191 کے تحت قانون سازی کر کے اس کی رو آئین کے آرٹیکل25،10 اے اور4 کے مطابق عوام کے بنیادی حقوق یقینی بنائے ہیں۔ نظرِ ثانی میں جو لوگوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے کہ آرٹیکل184 (3) کے حوالے سے بہت کم گنجائش دی جاتی ہے جسے بہتر کرنے کے لیے یہ پروسیجرل قانون دیا گیا۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ حکومتی اراکین جو صبح شام پارلیمان کی بالادستی کی بات کرتے نہیں تھکتے وہ اس ایوان میں خود توہین پارلیمان کررہے ہیں اور اسے ایک دکان کے ساتھ تشبیہ دے رہے ہیں، یہ بتائیں کہ دکان دار کون ہے۔ وزیر قانون نے پارلیمان کو دھمکی دی کہ ہم یہ بل پاس کروا کر رہیں گے، جب دلیل نہیں ہوتی تو دھمکیاں رہ جاتی ہیں۔ اس کے بل کے پسِ پردہ مقصد کیا ہے، صرف ایک مقصد ہے کہ نااہلی کے مقدمات کو معاف کرایا جائے، پہلے انہوں نے کرپشن کے کیسز معاف کرائے اب یہ کیسز معاف کرائیں گے۔ انہوں نے بل کی کاپی پھاڑ کر مطالبہ کیا گیا کہ بل کو متعلقہ کمیٹی میں بھیجا جائے۔انہوںنے کہاکہ الیکشن کمیشن جو کہہ رہا ہے وہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے، یہ جانبدارانہ الیکشن کمیشن ہے۔ اس وقت اقتدار کی ایک جنگ چل رہی ، ہر ادارہ اپنی حدود و قیود کے تحت سپریم ہے ۔ ہم تصور کر لیتے ہیں کہ پارلیمنٹ حرف آخر ہے ،ایک رولنگ پھر قاسم سوری نے بھی دی تھی اس پر بھی غور کیا جائے ۔اعجاز چوہدری نے کہا شاہد خاقان عباسی نے آٹا سکیم میں کرپشن سے متعلق جو الزام لگایا ہے اس کی تحقیقات کی جائیں، سیلاب میں جو امداد آئی تھی اس کی بھی تحقیقات کی جائے۔ملک میں کبھی وزیر خارجہ ہوتے تھے اب وزیر سیر و تفریح ہے، وزیر خارجہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں آن لائن شریک ہو سکتے تھے لیکن یہ نریندر مودی کی محبت میں گرفتار ہیں، تو وہیں سکونت اختیار کرلیں، پی ٹی آئی سینیٹر نے کہا کہ انہوں نے کشمیر کے خون سے غداری کی ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بجٹ کون دے گا؟ سینیٹر اعجاز چوہدری نے بلاول بھٹو بارے تضحیک آمیز ریمارکس دیئے جسے چیئرمین سینیٹ نے کارروائی سے حذف کرادیا اور اس پر سینیٹر مولا بخش چانڈیو کی جانب سے نامناسب جواب بھی آیا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ انہیں معلوم نہیں کہ وزیر خارجہ افغانستان گئے تھے۔ یہ کامیابی ہے کہ بلاول بھارت میں ایس سی او میں شریک ہیں، پوری دینا اس کی تعریف کر رہی ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پی ٹی آئی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ان کے سابق وزیر اسی امریکا میں ملاقاتیں کرتے ہیں جن پر یہ رجیم چینج کا الزام لگاتے ہیں۔ کھانے کھاتے ہیں، تصاویر شئیر کرتے ہیں۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہاکہ چوہدری پرویز الہی دو بار وزیر اعلی رہے اور ڈپٹی وزیراعظم رہے، شریف آدمی کے گھر پر ایسی چڑھائی ہوتی ہے کہ اس کی بھی مثال نہیں ملتی ۔ نوٹس لینا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ آئی جی پنجاب کو طلب کر کے اس سے پوچھنا چاہیے کہ اس نے ایسا سلوک کیوں کیا؟، بعد ازاں سینیٹ اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا ۔
سینیٹ اجلاس