• news

مذاکرات ناکام ہوئے تو 14مئی کے فیصلے کو لیکر بیٹھے رہیں گے : چیف جسٹس 


اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے سے متعلق کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ 90 روز میں انتخابات کرانے کا فیصلہ دے چکی ہے۔ عدالت نے الیکشن سے متعلق اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا ہے۔ یہ قومی اور عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عملداری کا معاملہ ہے۔ ٹی وی پر دونوں فریقین کا م¶قف سنا۔ مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔ غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے۔ اس لئے ہم غصہ نہیں کرتے۔ آپ چار تین کی بحث میں لگے رہے، آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں، کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا۔ آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نکتہ اٹھایا، حکومت کی دلچسپی نہیں تھی۔ فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ مذاکرات کیلئے مزید وقت درکار ہے، ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کو حکومت تیار ہے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ اور ایک دن انتخابات پر اتفاق ہوا، اسمبلی تحلیل کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا، اسمبلی تحلیل سے پہلے بجٹ، آئی ایم ایف معاہدہ کی منظوری لازمی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں معاملہ آئینی ہے سیاسی نہیں، سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے، آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟۔ اسمبلی تحلیل ہونے پر بھی بجٹ کیلئے آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت کو 90 روز میں انتخابات والے معاملے کا جائزہ لینا ہوگا، انتخابات کیلئے نگران حکومتوں کا ہونا ضروری ہے۔ منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیں، جو بات یہاں ہو رہی ہے اس کا لیول دیکھیں، معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں، یہ سارے نکات اس وقت نہیں اٹھائے گئے۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے 14مئی کو انتخابات کے حکم پر عملدرآمد کی استدعا کردی۔ تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت اپنے حکم پر عملدرآمد کراتے ہوئے فیصلہ نمٹا دے، حکومت نے 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کی۔ فاروق نائیک نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ غیر متعلقہ ہیں۔ لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق نے عدالت کو بتایا کہ سیلاب اور محترمہ بینظیر کی شہادت کے باعث انتخابات میں تاخیر ہوئی، اگر حکومت نے کوئی قانونی نکتہ نہیں اٹھایا تو عدالت ازخود ان پر غور کرے۔ پی ٹی آئی نے کھلے دل سے مذاکرات کیے اس پر ان کا شکر گزار ہوں۔ مذاکرات میں طے ہوا ہے کہ یہ لوگ نتائج تسلیم کریں گے، چاہتے ہیں شفاف الیکشن ہوں اور سب ان نتائج کو تسلیم کریں۔ سندھ اور بلوچستان میں اسمبلیاں بہت حساس ہیں، دونوں اسمبلیوں کو پنجاب کیلئے وقت سے پہلے تحلیل کرنا مشکل کام ہے، مذاکرات کا مقصد وقت کا ضیاع نہیں ہے، مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں، یہ میری تجویز ہے، عدالت کو سیاسی معاملات میں الجھانے سے پیچیدگیاں ہوتی ہیں، اپنی مدت سے حکومت ایک گھنٹہ بھی زیادہ نہیں رہنا چاہتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 63 اے والی نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر ہو رہی ہے، اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے آگاہ کر دیا گیا ہے، عدالت اپنا ہاتھ روک کر بیٹھی ہے کیونکہ حالات سازگار نہیں ہیں۔ بڑی بڑی جنگوں کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں، ترکی میں زلزلے کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں، پنجاب کی جو بات کی گئی ہے سیاسی ہے لیکن عدالت کو لکھ کر نہیں دی گئی۔ عدالت کے سامنے صرف فنڈز اور سکیورٹی کا معاملہ اٹھایا گیا۔ نیک نیتی دکھانے کیلئے اقدامات کرنے پڑتے ہیں، کم ازکم فنڈز تو جاری ہوسکتے تھے، سکیورٹی پر عدالت کو ان کیمرہ بریفنگ دی گئی مگر اکتوبر تک سکیورٹی ٹھیک ہونے کی کیا گارنٹی تھی، صرف مفروضوں پر الیکشن کی تاریخ دی گئی ہے۔ لازمی تو نہیں کہ بجٹ جون میں ہی پیش کیا جائے، بجٹ تو مئی میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں، خواجہ صاحب آپ کی باتوں میں ہی وزن لگ رہا ہے، آپ چاہتے ہیں عدالت سوموٹو نکات اٹھائے، ہم نے سوموٹو لینے چھوڑ دیئے ہیں۔ دونوں فریقین کو لچک دکھانی چاہئے، امتحان سے نکل سکتے ہیں اگر آپ کا اتفاق رائے ہو جائے، اللہ نے امتحان مقرر کیا ہے تو ہمارے ساتھ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ شاہ محمود قریشی نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے کوئی نئی بات نہیں کی، پرانا م¶قف دہرایا ہے، اپنی پوری کوشش کی کہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکیں مگر حکومتی بینچز سے عدالتی حکم کی خلاف ورزی اور تکبر والی باتیں آرہی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ ہماری متفرق درخواست پر تمام کمیٹی ارکان کے دستخط ہیں، حکومتی جواب میں صرف اسحاق ڈار کے دستخط ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتی درخواست صبح آئی ابھی نمبر بھی نہیں لگا، لیکن اسے سن لیا، پی ٹی آئی اور حکومت کی آپس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، عدالت کو صرف یہ دیکھنا ہے کسی تاریخ پر اتفاق ہوا یا نہیں۔ رہنما تحریک انصاف نے کہا کہ ملک کو آئینی بحرانوں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر دلچسپی ہو تو دوبارہ مذاکرات پر آ جائیں جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہی، ہم مذاکرات کر رہے ہیں یہ پکڑ دھکڑ کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں وکلا اور سیاسی رہنماﺅں کے دلائل کے بعد ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرانے کی درخواست پر سماعت مکمل ہوگئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس پر نمٹا دیں کہ فریقین ایک تاریخ پر الیکشن کرانے پر متفق ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس نتیجے پر پہنچے کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑا جائے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف وعدے کرتے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس

ای پیپر-دی نیشن