زیڈ اے سلیری
27 اپریل 1995ء کو جب انہیں چوتھی بار سی پی این ای کا صدر منتخب کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں جب بیشتر قومی ادارے عضوِ معطل بن کر رہ گئے ہیں پریس کے کردار نے بڑی اہمیت اختیار کرلی ہے اور پاکستان کے اخبارات کو اپنی ان گراں بہا ذمہ داریوں کا بخوبی احساس ہے جو ملک اور قوم کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ ہمارے قومی پریس نے اپنے فریضہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھا ہے اور وہ آئندہ بھی تمام مشکلات اور پابندیوں کے باوجود اپنا یہ فرض ادا کرتا رہے گا۔ ہم آزادیٔ صحافت کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور اپنا مقدس فرض جرأت کے ساتھ ادا کریں گے۔
21 جون 1995ء کو انہوں نے سی پی این ای کی مجلس قائمہ کے اجلاس سے خطاب کے دوران کراچی کی صورت حال پر گہرے اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کراچی کا مسئلہ کسی ایک جماعت یا گروہ اور حزب اختلاف اور حزب اقتدار کا مسئلہ نہیں بلکہ پُورے ملک کا مسئلہ ہے اس مسئلہ کو اس نقطۂ نظر سے دیکھا جانا چاہئے۔ کراچی کے شہریوں کو ریاستی اقتدار اور اختیار میں شریک کرنا، ان کے نمائندوں کو جلد از جلد ان کے جائز دستوری، قانونی اور انتخابی حقوق واپس کرنا قومی سلامتی کے نقطۂ نظر سے اشد ضروری ہے۔ کراچی پاکستان کی واحد بندر گاہ اور صنعتی و معاشی لحاظ سے اہمیت رکھنے کے علاوہ ملک کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ کراچی کے عوام کو دہشت گردی، تخریب کاری اور حکومتی بے حسی کا جس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اگر وقت کی آواز پر کان نہ دھرے گئے تو کراچی میں تخریبی کارروائیاں کرنے والے اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گے اور ملک کا سیاسی، معاشی اور انتظامی ڈھانچہ مزید خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔ انہوں نے اخبارات سے اپیل کی کہ وہ کراچی کے مسئلہ کے اطمینان بخش سیاسی حل کے لئے فضا کو سازگار بنانے کی غرض سے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔
16 جون 95ء کو کراچی میں ’’نوائے وقت‘‘ پر شر پسندوں کی فائرنگ اور راکٹ پھینکنے کے افسوس ناک واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا یہ واقعہ صدر مملکت سے سی پی این ای اور اے پی این ایس کے عہدیداروں اور رہنمائوں کی ملاقات کے تین روز بعد پیش آیا جس میں سی پی این ای نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ کراچی کی صورت حال ایک اہم ترین قومی مسئلہ کو حل کرنے میں حکومت کے عزم و ارادہ کے فقدان کی مظہر ہے۔ پاکستان میں اخبارات کے خلاف تشدد کی تاریخ میں کراچی کا یہ سانحہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا سنگین واقعہ ہے جس میں مسلح حملہ آوروں نے راکٹ استعمال کئے۔ انہوں نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کی انتظامیہ اور کارکنوں سے پُر خلوص ہمدردی اور مکمل یک جہتی کا اظہار کیا۔ 11 اپریل 96ء کو لاہور میں سی پی این ای کی سٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو پریس کے ساتھ تعلقات رکھنے کے لئے برداشت، رواداری اور حقیقت پسندی سے کام لینا اور دشنام طرازی سے گریز کرنا چاہئے۔ حکمرانوں کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے صحافت کو آزادی بخشی درست نہیں کیونکہ آزادی مانگنے سے نہیں ملتی بلکہ جدوجہد اور مسلسل کوشش سے حاصل کرنا چاہئے اور پاکستان میں ہر دور میں صحافیوں نے اس کے لئے گراں قدر قربانیاں دی ہیں۔ میں خود لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین کے زمانے میں آزادیٔ صحافت ہی کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر چکا ہوں۔
صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے جو باقی تینوں ستونوں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے لئے تقویت کا باعث بنتا ہے اس لئے حکومت کو اخبارات و جرائد کا احترام کرنا چاہئے اور ان کے ایڈیٹروں سے شائستہ لہجہ میں بات کرنی چاہئے۔ ’’یہ تھے قومی صحافت کے آزادانہ کردار کے بارے میں جناب زیڈ اے سلیری کے خیالات و تصورات جو صحافت کی آزادی کے لئے کام کرنے والوں کو ہمیشہ روشنی عطا کرتے رہیں گے اور ان کی راہوں کو فروزاں کرنے کا باعث بنیں گے‘‘۔ (ختم شد)
٭…٭…٭