حدود و قیود کا تعین
سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بنچ کی طرف سے غلام محمد ڈوگر، سابقہ سی سی پی او لاہور کے تبادلے کے احکامات معطل کرنے کے حکم سے اعلٰی عدلیہ اور پارلیمنٹ کے مابین جنم لینے والی چپقلش سے پروان چڑھنے والی چمکتی، گرجتی اور برستی گھٹائیں چھٹنے کی بجائے روز بروز مزید گَھنگھور اور مہیب ہوتی جا رہی ہیں. ملکی معیشت کی زبوں حالی اور ادارہ جاتی کشمکش اور برتری کے زعم نے ہَر کَس و نا کَس کو ناحق ذہنی، جسمانی اور معاشی طور پر ایک مستقل اذیت سے دوچار کرکے رکھ دیا ہے. بظاہر مستقبل قریب اور بعید میں اصلاحِ احوال کی کوئی ننھی سی کرن کی ادنٰی سی جھلک بھی دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔اِس حقیقت سے سرِ مو انحراف ممکن نہیں کہ آئین کیمطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نوے دن کے اندر اندر نئے انتخابات کا عمل ناگزیر ہو جاتا ہے. سپریم کورٹ نے بھی اِسی امر کو یقینی بنانے کیلئے ازخود نوٹس لیا ہوگا. بلا شبہ آئین کے مطابق ازخود نوٹس لینا سپریم کورٹ کا استحقاق بھی ٹھہرا جس پر کوئی بھی کسی قسم کے کسی انکار یا فرار کی کوئی گنجائش نہیں نکال سکتا. اِس واضح آئینی نْکتے کے باوجود مذکورہ دونوں اداروں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہو گئی ہے. اِس پر آئینی ماہرین، سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کی سوچ یکسو ہونے کی بجائے منقسم ہو کر مائل بہ تعصب ہوتی جا رہی ہے۔سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے مابین اِس بڑھتی ہوئی ناخوشگوار صورتحال پر عام پاکستانیوں کی آراء کچھ یوں ہیں:-
کاش معاملہ پہلے ہی سے ہائی کورٹ میں زیرِ بحث ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ ازخود نوٹس نہ لیتی، کاش ایک پولیس افسر کے تبادلے کے کیس میں سے نوے روز میں انتخابات کروانے کے عمل کو نہ ڈھونڈا جاتا، جب عمران خان کو فل کورٹ بنچ بنانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، حکومت اور سول سوسائٹی بھی فل کورٹ بنچ کی تشکیل کی اپیلیں اور التجائیں کر رہی تھیں اور خود سپریم کورٹ کے اندر سے بھی تین رکنی پنچ پر تحفظات موجود تھے تو کاش چیف جسٹس فل کورٹ بنچ بنا کر سب کی تشفی کرا دیتے، کاش سابق آرمی چیف کے بعض من پسند اور متنازعہ فیصلوں پر حکومت اور اپوزیشن کے مطالبے پر بھی ازخود نوٹس کی کاروائی ہوتی، کاش بنج کے ارکان کی تعداد سات سے کم ہو کر ایک ہی صوبے سے تعلق رکھنے والے مخصوص تین جسٹس صاحبان تک محدود نہ ہوتی، کاش سینئر جسٹس صاحبان کو بنچ سے مکمل طور پر باہر نہ کیا جاتا، کاش پنجاب اسمبلی کیساتھ ساتھ کے پی کے اسمبلی کو بھی بریکٹ کرکے اْس کا بھی الیکشن شیڈول جاری کیا جاتا، کاش سپریم کورٹ کی کارروائی سے جلدبازی اور ذاتی دلچسپی کا گمان نہ گزرتا، کاش سیاست دانوں کو باہم مل بیٹھ کر پنچایت لگانے کا حکم دینے والے خود اکٹھے بیٹھ سکتے، کاش مبینہ آڈیوز کے منظرِ عام پر بھی ازخود نوٹس لیا جاتا، کاش سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل، 2023 وجود میں آنے سے پہلے ہی حکم امتناعی کے ذریعے غیر موثر نہ کیا ہوتا!
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ پر وزیراعظم، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے علاوہ وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ کے ہر اجلاس میں اِس بنچ اور اِس کی سبک رفتار سماعت کو یکطرفہ قرار دے کر ہدف تنقید بناتے ہوئے اِس کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے. پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے سپریم کورٹ کے 2010 سے ا?ڈٹ نہ ہونے پر استفسار کیا کہ چیف جسٹس کس قانون کے تحت آڈٹ نہیں کرا رہے چیئرمین پی اے سی نے مزید کہا، " میں کرپشن کیجتنے کیس پکڑتا ہوں، عدالتیں حکم امتناعی جاری کر دیتی ہیں"۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ کے آڈٹ کے معاملے پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو 16 مئی کو طلبی کے لیے نوٹس بھی بھجوا دیا ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے شکستہ دلی سے انکشاف کرتے ہوئے کہا، "دو جونیئر ججوں کے حق میں اس لیے ووٹ دیا کہ عسکری قیادت نے حکومت سے کہا تھا کہ چیف جسٹس کے نامزد جج قبول کر لیں". انہوں نے اِس غلطی پر قوم سے معافی بھی مانگی. وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدلیہ کے نظریہ ضرورت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے عدلیہ سے جسٹس منیر سے لے کر موجودہ چیف جسٹس تک کئے گئے غیر آئینی اور غیر منصفانہ فیصلوں کا حساب مانگا. وہ سیاستدانوں کی غلطیوں پر معافی مانگنا بھی نہیں بھولے. سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ میں طلب کرنے کی تجویز پیش کی۔وفاقی وزیر قانون نے جوڈیشل کمیشن بٹھا کر ججوں کی تعیناتی کا معیار ایک ہی بار طے کر لینے جبکہ وزیراعظم کے سابقہ معاون خصوصی عرفان قادر نے جج بنانے سے پہلے نفسیاتی ٹیسٹ ہونے کی بات کی ہے. جج صاحبان کے نفسیاتی ٹیسٹ کرانے کی تجویز اعتزاز احسن بھی ماضی میں دے چکے ہیں. اِس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے طریقہء کار میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے. سی ایس ایس کے امتحان میں ہر امیدوار تحریری ٹیسٹ، طبی معائنہ، نفسیاتی جانچ پڑتال اور انٹرویو (Viva-voce) کے مراحل طے کرنے کے بعد اسامیوں کی تعداد اور کوٹے کے لحاظ سے میرٹ پر پورا اترنے اور ضروری پیشہ ورانہ تربیت مکمل کرنے کے بعد نوکری کی شروعات کرتا ہے.نچلی عدالتوں میں بھی صوبائی پبلک سروس کمیشنز کے توسط سے کم و بیش اسی طریقہ کار کے تحت تقرریاں عمل میں لائی جاتی ہیں. فوج میں کمیشن لینے کا اپنا طریقہ کار ہے.
اب وقت آ گیا ہے کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرریاں بھی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سی ایس ایس کی طرز پر عمل میں لائی جائیں۔ اِس کیلئے پارلیمنٹ ضروری قانون سازی کرے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن، وزارتِ قانون و دیگر ماہرین سے مل کر سلیبس، صوبہ وار کوٹہ، لوئر جیوڈیشری کا کوٹہ، امیدوار کی تعلیمی اہلیت، تجربہ، ساکھ اور دیگر تمام ضروری امور کی جزویات طے کرے. اِس طریقہء کار سے عدلیہ میں آنیوالے ججز نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کیلئے دفن کر سکیں گے. اختلافات رائے تو ہو سکتا ہے مگر گروپ بندی نہیں ہوگی. وہ اپنی حدود سے باہر نکلیں گے اور نہ کسی کو اپنے معاملات میں مداخلت کا موقع دینگے. کے پی کے، بلوچستان اور اقلیتوں کا کوٹہ زیادہ مقرر کیا جائے کیونکہ ان لوگوں نے ہر دور میں زیادہ بہتر ڈیلیور کیا ہے. سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل، 2023 کی منظور کرانے پر جتنی دلچسپی، پھرتی، عجلت، تدبر اور اتفاق رائے کا مظاہرہ پارلیمنٹ نے کیا ہے، کاش اتنا ہی وہ ججز کی تقرری اور دیگر عدالتی اصلاحات کے لئے بھی کر لے تو یہ ملک و قوم پر احسان ہوگا. پارلیمنٹ عمران خان کو اعتماد میں لے سکے تو سونے پر سہاگہ ہوگا. ویسے بھی اِس طرح کے سازگار مواقع بار بار نہیں آیا کرتے۔