بلاول بھٹو کا دورہ بھارت اور اداروں کی ساکھ
شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس ختم ہو چکا ہے ۔ پاکستان کی اس میں شرکت ایک امتحان سے کم نہ تھی ۔ غالب کے بقول ۔۔ایماں مجھے روکے ہے توکھینچے ہے مجھے کفر۔ والی کیفیت تھی ۔ ایک طرف 5اگست 2019 سے جب بھارت کی مودی سرکار نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے مقبوضہ کشمیر کو عملا بھارت میں ضم کر لیا تھا پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کشیدگی کی انتہاکو پہنچے ہوئے تھے واہگہ بارڈر کے ذریعے تجارت تک بند تھی اور دوسری طرف چین سے تعلقات کی اہمیت تھی جو شنگھائی تعاون تنظیم کا محرک بانی بھی ہے اورجس سے محبت اور بھائی چارے کے مثالی رشتے تھے ۔ بھارت نے اس کانفرنس کے لئے میزبانی کی گہری چال چلی تھی کہ اگر پاکستان بائیکاٹ کرتا ہے توچین ناراض اور نہیں کرتا تو بھارتی مقبوضہ کشمیر پر اس موقف کمزور۔۔ شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن SCO بنیادی طورپر ایک یوریشائی سیاسی اقتصادی عسکری تنظیم ہے جسے شنگھائی میں 2001 میں چین قازقستان کرغیزستان روس تاجکستان اور ازبکستان کے راہنمائوں نے قائم کیا ۔جولائی 2015میں پاکستان اور بھارت کی رکنیت کی درخواستیںمنظور ہوئیں اس کا صدردفتر بھی بیجنگ چین میں ہے ۔ آٹھ اراکین کے ساتھ اس تنظیم میں افغانستان ایران بیلا روس اور منگولیا مبصر کے طورپر شامل ہیں ان کے علاوہ ترکی سری لنکا نیپال کمبوڈیا اور آرمینیا جیسے ممالک مکالمے کی حد تک اس کا حصہ ہیں ۔ گویا گلوب پر ایک بڑے دائرے کے اندر تمام ممالک کسی نہ کسی طرح اس تنظیم سے جڑے ہیں اور چین اور اس کے ساتھ روس نے بڑی مہارت سے یورپی یونین کی طرز پر اپنے ارد گرد کے ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا ہے۔ ایسی تنظیم کے وزراء خارجہ کی سطح کے کسی اجلاس کا بائیکاٹ بہت سے خطرات کا حامل ہوسکتا تھا سو اس حد تک توپاکستان کی طرف سے اس کانفرنس میں شمولیت کا فیصلہ درست تھا ۔
بس لمحہ بھر میں فیصلہ کرنا پڑا مجھے
سب چھوڑ چھاڑگھر سے نکلنا پڑا مجھے
بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کی حکومت کی بجائے ایک اتحادی حکومت کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے گوا گئے تھے اس لئے وہ پاکستان کی طے شدہ لائن سے ہٹ کر بات نہیں کر سکتے تھے سو ایسا ہی ہوا اور انہوں نے کلبھوشن کے حوالے سے بھارتی دہشت گردی اور کشمیر پر یکطرفہ اقدامات کا ذکر کرکے اجتماعی پاکستانی پالیسی کی ہی بات کی سو اس دورے کی مخالفت برائے مخالفت ٹھیک نہیں ہوگی ۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ چین بیسڈ تنظیم کے بھارت میں منعقدہ اجلاس میں شرکت سے پاکستان کو چین کا جو اعتماد ملا اس کے اثرات اب چینی وزیر خارجہ کے پاکستان کے دورے کے دوران بھی سامنے آئیں گے کیونکہ چینی وزیر خارجہ چن گانگ بھی بلاول بھٹو کی طرح گوا سے سیدھے پاکستان آئے جہاں افغانستان کے وزیر خارجہ کے ساتھ مل کر علاقے میں امن اورباہمی مفادات کے لئے اہم فیصلے ہونے جا رہے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ تاریخ کا پہیہ گھوم کر پھر ایک نازک مرحلے پر آ گیا ہے ۔1965 کی جنگ کے آخری مرحلے پر جب 22 ستمبر کو بلاول کے نانا بھٹو ایوب خان کی طرف سے یو این او کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران بھارت کے خلاف 1000سال تک جنگ کرنے کا اعلان کر رہے تھے تو تقریر کے دوران ہی انہیں فوجی حکمران کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا گیا کو پاکستان نے یو این او کی قرارداد کی روشنی میں سیز فائر قبول کر لیا ہے اوراسی تقریر میں بھٹو نے کہا تھا کو جنگ بندی قبول ہے مگر کشمیر کے بارے میں فیصلہ نہ ہوا توپھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔پھر بہت کچھ ہوتا رہا ۔ پاکستان دو لخت کر دیا گیا اور کشمیر بھارت میں ضم ہو گیا اور اب حالات کے جبر کے ہاتھوں بھٹوکا نواسا اسی بھارت میں موجود تھا اور وہی مطالبہ ہو رہا تھا کو کشمیر کا مسئلہ حل کیا جائے جب کہ بھارتی میڈیاایک قدم آگے بڑھ کر اب پاکستان کے وزیر خارجہ کوایک دہشت گرد ملک کے وزیرخارجہ کے طورپر متعارف کروا رہا تھا۔ بھارتی چالیں دیکھئے کہ گوا میں بلاول بھٹو کا استقبال کرنے والے بھارتی وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام میں پاکستان میں سابق بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ تھے جواب بھارتی وزارت خارجہ میں پاکستان، افغانستان اور ایران چیپٹر کے نمائندہ خصوصی ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری اپنی اندرونی کمزوریوں کے باعث ہوا ہے نکہ ہم اپنے اداروں کو اپنے عارضی مفادات کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں اور سیاسی اقتصادی اور جمہوری حوالے سے بھارت سمیت سب کے لئے ایک مذاق بن کر رہ گئے ہیں ۔ اگرچہ بھارت ہمار ے مقابلے میں جمہوری اور انسانی قدروں کی خلاف وورزی میں کہیں بڑھ کر ہے اور مشرقی پنجاب مقبوضہ کشمیر سمیت کئی ریاستوں میں ریاستی دہشت گردی اور اقلیتوں کے خلاف ہندو انتہا پسندی آج کے سوشل میڈیا دور میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں گوا کانفرنس کے دوران ہی اس کے صوبے منی پور میں جس طرح ہندو انتہا پسندوں نے عیسائی اقلیت کے گھروں اور گرجا گھروں کو نظر آتش کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے لیکن اپنے اداروں اور سسٹم کے استحکام کی بنیاد پر وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہے
دامن پر کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
وہ قتل کرے ہے کہ کرامات کرے ہے
۔ایک ہم ہیں کہ ہٹتے ہٹتے اب اس سطح پر آ چکے ہیں کہ سابق آرمی چیف کی یہ باتیں اب سینئر صحافیوں اور اہم راہنمائوں کے ذریعے لیک ہو رہی ہیں کہ ہمارے ٹینکوں کیلئے تیل ہی نہیں ۔اپنے مفادات کے لئے ایسی بے بنیاد کمزوریوں کا اظہار کیوں کیا جاتا رہا ہے؟۔ کیوں کارخانے بند اور مہنگائی عروج پر ہے۔ ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ضد میری مجبوری کی بجائے سارے اداروں کا احترام اور طاقت کے ساتھ جمہوری عمل کو بحال کرنے کے لئے جس کی جتنی ذمہ داری بنتی ہے وہ ادا کر ے جس کو جو قربانی دینا پڑتی ہے وہ قوم و ملک کی خاطر دے تو اب بھی پاکستان اپنے خطے میں صحیح معنوں میں سر اٹھا کر چل سکتا ہے اور عالم اسلام میں قائد کا رول بھی ادا کرسکتا ہے کیونکہ یہ واحد ایٹمی طاقت ہے اور جمہوریت کے ساتھ طاقت ہی تو اس دورمیں سر اٹھا کر چلنے کے قابل بناتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ۔
برے بھلے کی صدا اور نشان دیتے ہوئے
گزر رہا ہے زمانہ اذان دیتے ہوئے