آئی ایم ایف کے بڑھتے مطالبات
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرض پروگرام کی معیاد میں 53 دن باقی رہ گئے ہیں، پروگرام کے تحت اس مدت میںیکے بعد دیگرے تین ریویوز مکمل ہونا پاکستان کے لیے مشکل نظر آرہا ہے جبکہ گزشتہ 13 ماہ سے جاری 9 واں ریویو تاحال مکمل نہیں ہوسکا۔ اب اس پروگرام کو مکمل کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی میعادکو 30 جون سے آگے بڑھایا جائے یایا نویں ، دسویں اور گیارہویں ریویوز کو مئی کی باقی ماندہ معیاد میں بیک وقت مکمل کر لیا جائے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے جو نئے مطالبات سامنے آئے ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اپنے ریونیو کے ہدف میں تین سے چار ہزار ارب روپے کا اضافہ کرے۔ پاکستان کے لیے گزشتہ 13 ماہ سے جاری 9واں ریویو ابھی تک مکمل نہیں ہو پایا جبکہ رواں مالی سال کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ریو نیو کے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان رواں مالی سال کا ریونیو کا ہدف مکمل نہیں کر سکے گا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ پاکستان کی جانب سے پیشگی اقدامات سمیت آئی ایم ایف کی تمام ناروا کڑی شرائط پوری کرنے کے باوجود اس کی طرف سے ڈومور کے تقاضے کیے جا رہے ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے پاکستان کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں، وہ اس کی مجبوریوں اور کمزوریوں کو بھانپ کر ہی اپنے مخصوص ایجنڈے پر کام کررہا ہے ورنہ اسے مطمئن کرنے کے لیے پاکستان جو کچھ کر چکا ہے اس کے بعد مزید تقاضوں کا اس کے پاس کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ آئی ایم ایف کا موجودہ تقاضا سراسر بدنیتی پر مبنی ہے۔ اگر حکومت اس کا یہ مطالبہ پورا کرنے کی ٹھان لیتی ہے تو اس کی منشاء کے مطابق اسے اپنے آئندہ مالی سال کے قومی بجٹ میں اضافے ہی کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے کئی منی بجٹ بھی لانا ہوں گے جس کا بوجھ لامحالہ ناتواں عوام پر ہی ڈالا جائے گا۔ بہتر ہے کہ حکومت ملک و قوم کے مفاد کے پیش نظر خودمختاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف کو ’بس بہت ہوگیا‘ کہہ کر اس کے ڈومور کے تقاضوں کے آگے بند باندھنے کی کوئی مؤثر سبیل نکالنا چاہیے۔ جب تک اس کے چنگل سے خلاصی نہیں پائی جائیگی معیشت درست ہو سکتی ہے نہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔