• news

ہنر مند نوجوان ،خوشحال پاکستان

یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا راز تعلیمی نظام میں پوشیدہ ہے۔ تعلیمی نظام کی بنیاد جس قدر مضبوط اور بامقصد ہوگی اس حساب سے اس قوم میںمعاشی ترقی، اتحاد و اتفاق اور ہم آہنگی کا عنصر موجود ہوگا۔ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بامقصد تعلیم کیسے ممکن ہے ۔ابھی تک کی صورتحال یہ ہے کہ ہماری درس گاہیں طلبا و طالبات کوصرف معلومات مہیا کرنے میں لگی ہوئی ہیں ۔کہ کب کیا ہوا تھا کب کس نے ملک لوٹا۔کب کون چاند پر گیا اور کہاں کہاں کیا کیا دستیاب ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کو چاند پر کمند ڈالنے کا ہنر سکھایا جائے۔بچوں کو ملک لوٹنے کی بجائے ملک سنوارنے کی طرف راغب کیا جائے۔ بچوں کو ملکی وسائل کو بہتر طور پر استعمال کرنا اور قانون کا احترام کرنے والا اچھا انسان بن کے فلاحی معاشرے کے حصول کی طرف رہنمائی دی جائے۔
لیکن آج بھی ہمارے نوجوان جب ڈگری لے کے عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو ان کی ڈگری سے نہ انھیں کہیں کوئی مناسب نوکری ملتی ہے اور کوئی ہنر نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی اپنا کام بھی نہیں کرسکتے۔جس کے چلتے ہر سال لاکھو ںکی تعداد میں بیروزگار نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہونے لگیں تو نا امیدی سے امن و امان اوردیگر معاشرتی مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اگر ہم اپنے نظام تعلیم کا جائزہ لیں تو ہم حقیقی طور پر محسوس کریں گے ہمارا مروجہ نظام تعلیم دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے معاون ثابت نہیں ہو رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں خواندگی کی شرح  کا جائزہ لیں تو اس معاملے میں ہم سب سے پیچھے ہیں۔ سری لنکا جیسا کمزور معیشت کا ملک شرح خواندگی میں ہم سے کہیں آگے ہے۔ ہمیںجاپان اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک سے سیکھنے کی ضرورت ہے جنھوں نے عالمگیر جنگوں میں بربادی کے باوجود ٹیکنیکل تعلیم کے ذریعے نہ صرف اپنی معیشت مضبوط کی بلکہ اپنی اعلیٰ کوالٹی کی وجہ سے دنیا بھر میں ان کی تیار کردہ اشیا بک رہی ہیں۔
چند دن پہلے تاج اسلامک ریسرچ سینٹر میں ایک نشست ہوئی جس میں مکالمے کا عنوان تھا کہ معاشی ترقی اور ہمارا تعلیمی نظام۔مکالمے میں شہر بھر سے ماہرین تعلیم نے شرکت کی۔ان میں بہت سے ایسے تھے جو کئی سال سے شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں ۔حاصل مکالمہ یہ تھا کہ اگر تعلیم بامقصد ہو تو قلیل وقت میںایسے ہنر مند نوجوان تیار کیے جاسکتے ہیں جو اپنی محنت لگن اور جذبہ حب الوطنی سے چند عشروں بعد پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لا کھڑا کریں، یعنی ہمیں یہ نقطہ سامنے رکھنا ہوگا کہ بامقصد تعلیم کے بغیر ہم نہ ترقی کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایک قوم کے معیار پر پورا اترسکتے ہیں۔یہ بحث چل پڑی کہ بہت ہوگیا اب پرانے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کر کوشش شروع کردینی چاہیے ۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ہاتھوں میں ڈگریاں لیے دفتروں کے چکر لگاتی رہتی ہیں۔ہر سال ہماری درسگاہوں سے لاکھوں نوجوان امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس ہورہے ہیں لیکن ان کی ڈگریوں کی بنیاد پر انہیں کہیں نوکری نہیں مل رہی ہے ۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری ڈگریوں کی قدر ملک اور بیرون ملک کچھ بھی نہیں۔رٹے لگا کے اے پلس نمبر حاصل کرنے والے بہت سے نوجوانوں کو اپنی سی وی تک بنانی نہیں آتی ہے ۔کسی دفتر میں جاکے انٹرویو دینا پڑے تو ان کی زبان خشک ہونے لگتی ہے ۔اس پر غور کرنے بہت شدت سے ضرورت ہے کہ ہمارا نوجوان کب تک بغیر مقصد کے امتحان پاس کرتا رہے گا ۔ہمارے ارباب اختیار کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارا تعلیمی نظام کھوکھلا کرنے میں کیا کیا قباحتیں ہیں۔ماسوائے حکمران طبقے کے سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام کو کھوکھلا کرنے میں نقل نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تعلیمی سال کے دوران اساتذہ سخت محنت سے بچوں کو سارا نصاب سمجھانے کی کوشش کرتے ۔لیکن زیادہ سے زیادہ نمبروں کے حصول نے دیکھتے ہی دیکھتے والدین، اساتذہ اور طلبہ کو محنت کی بجائے نقل کی طرف راغب کرنا شروع کردیا ۔
اس ضمن میںسب سے پہلے درستی کتابوں کی گائیڈز، شیٹ پیپرز، خلاصے وجود میں آئے۔میٹرک کے امتحان میں سو نمبر کا پیپر پریکٹیکل کا ہوتا ہے جس کے لیے پہلے طلبہ کو کاپی تیار کروانی ہوتی ہے پھر امتحانی سینٹر میں طلبہ سے عملی طور پرپریکٹیکل کروایا جانا مقصد تھا ۔لیکن آج کل پریکٹیکل کاپیاں بازار سے تیار شدہ مل جاتی ہیں اور امتحانی سینٹر میں سکول انتظامیہ ،والدین اوراساتذہ تعلقات اور کھابوں کے عوض بچوں کے پورے پورے نمبر لگوا رہے ہیں ۔پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں کے ذمہ داران خوشی یا مجبوری میں پریکٹیکل لینے والوں کی خوشامدیں بھی کرتے ہیں اور ان کی لیے پر تکلف کھانوں کی تیاری بھی امتحانی عمل کا حصہ بن چکی ہے۔ہم یہ جانتے بھی ہیں کہ یہی بچے کل کو جج، جرنیل اور بیوروکریٹ بنیں گے اس کے باوجود ہمارا نظام تعلیم میٹرک کی پہلی سند کے ساتھ ہی طلبہ کو یہ باور کروادیتا ہے کہ عملی زندگی میںکامیابی اور ترقی کے لیے محنت سے زیادہ تعلقات اور دعوتیں کام آئیں گی۔ ایف ایس سی میں طلبہ کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی سے نقل کا اہتمام کیاجاتا ہے کیونکہ حاصل کردہ نمبروں کی بنیادوں پر میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز میں داخلہ ہوتا ہے، لہٰذا ایف ایس سی کا سارا امتحانی نظام ہی مشکوک اور غیر شفاف ہو چکا لگتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن