حقیقی تبدیلی
ریاست کا محورعوام ہیں۔ ریاست کے اتحاد میں عوام مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور ملکی مستقبل کے ساتھ ساتھ ترقی کا انحصار اندرونی ہم آہنگی، جمہوریت اورآئین پر ہے۔ یہ کسی سیاست دان یا ماہر قانون کے بیان یا تقریرکی شہ سرخی نہیں بلکہ یہ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کے خطاب کاوہ اہم حصہ ہے جو انھوں نے کاکول اکیڈمی میں پاس آؤٹ ہونے والے کیڈٹس کے سامنے رکھا۔ یہ صرف کہنے کی حد تک باتیں نہیں ہیں۔ اس اہم ترین خطاب میں ملک کے مستقبل کا سیدھا روڈ میپ ہے۔ اگر اس خطاب کو پاکستانی سیاستدانوں کی دیرینہ خواہش کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کیونکہ سیاستدانوں کے لبوں پر ہمیشہ یہ شکوہ اورگلہ رہتا ہے کہ اداروں کی مداخلت کے باعث ملک میں جمہوریت پنپ نہیں رہی ہے۔ فوج کی جانب سے آئینی اختیارات سے تجاوز کے باعث آئینی ادارے کمزور ہوئے ہیں۔ کاکول میں جنرل صاحب نے گویا سیاست دانوں کے من کی بات کی۔جوباتیں سیاست خود کہنے سے ہچکچاتے رہے، آرمی چیف نے وہ باتیں بھی کھل قوم کے سامنیرکھ دیں۔ گویا اب گیند حکمرانوں اور سیاست دانوں کے کورٹ میں ہے۔دنیا کے عظیم فوج کے سپہ سالارکے حالیہ خطاب میں بہت گہرائی ہے۔ اسکی ٹائمنگ بھی اہم ہے۔ ملک میں جہاں سیاسی صورتحال دگر گوں ہے۔ وہیں امن دشمن عناصر عوام اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی طاق میں بھی ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ نے دشمن کو بھی بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کی بے لوث ادائیگی کے ذریعے فوج اور عوام کے مابین رشتے کو محفوظ اور مزید مضبوط بنائیں گے۔ ہماری اولین اور اہم ترین ذمہ داری ریاست پاکستان کے ساتھ وفاداری، پاک فوج کو دیے گئے آئینی کردار پر پرعزم رہنا ہے۔ آرمی چیف کے اس خطاب کے بعد صاحب اقتدار اور اپوزیشن جماعتوں کو ملکی مسائل اور بحرانوں کے خاتمے کیلئے کوئی جوازنہیں بچا۔سیاست دانوں کیلئے اب میدان کھلے ہیں۔ گیند بھی مکمل طور پر سیاسی پچ پر ہے۔اب یہ رٹ نہیں لگائی جاسکتی کہ فلاں کچھ کرنے نہیں دیتا یا کوئی ادارہ سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر آنے میں حائل ہے۔
2018ء سے جو سیاسی ماحول جاری ہے اس کی قیمت عوام کے ساتھ ساتھ ادارے بھی چکارہے ہیں۔اداروں کی کارکردگی بہت حد تک متاثر ہوچکی ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ آمنے سامنے ہیں۔آئین پر ضرب لگنے کا خدشہ ہے۔ قانون پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں لیکن بعض سیاست اب بھی صورتحال سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پاپولرٹی کے چسکے میں ملک کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اپنی انا کی تسکین کے لیے آئین و قانون کو داؤ پر لگانے پر تلے ہیں۔ اداروں میں تصادم اور ٹکراو کے درپے ہیں۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان جو خود کوتو آئین اور قانون کے چیمپئن سمجھتے ہیں مگر ان کی روش قانون شکنوں جیسی ہے۔ان کا طرز سیاست اب بھی جارحانہ ہے۔ وہ اب بھی اداروں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ سابق عسکری قیادت کے لیے بار بار مختلف القابات استعمال کرتے ہیں۔ نفرت آلودہ سیاست کو مزید زہرآلودہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ عمران خان معاملات آگے بڑھانے کے بجائے ماضی میں پھنسے ہوئے ہیں۔پی ٹی آئی اور حکومتی اتحاد کے درمیان مذاکرات کے تین راؤنڈ ہوچکے ہیں۔ بعض کڑی شرائط سے فریقین پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ اس مذاکراتی عمل کو نیک نیتی اور کھلے دل سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ عدلیہ بھی اس بات پر زور دے رہی ہے۔ ملک میں بیک وقت الیکشن سے متعلق کیس میں چیف جسٹس ہر سماعت میں یہ کہہ چکے ہیں کہ سیاسی معاملات سیاست دان مل بیٹھ کر حل کریں۔ اب جب گراؤنڈ مل رہا تو سیاستدان بھاگ کیوں رہے ہیں؟ وہ موقع کا فائدہ اٹھانے کے بجائے نادیدہ قوتوں کو کیوں دعوت دے رہے ہیں۔ کیا ان کا مقصد ملک میں انتشار اور افراتفری کو فروغ دینا ہے؟ کیا ان کا ایجنڈ سیاست کے بجائے کچھ اور ہے؟ عمران خان اور دیگر ضدی رہنماؤں کو کوئی یہ باتیں کیوں نہیں سمجھا رہا کہ اللہ کے واسطے خوشنما تقریریں کے خول سے باہر نکل کر خود مذاکرات کے میز پر آجائیں۔ وہ جو پیغام اپنے سیاسی حریفوں کو ٹی وی اور یوٹیوب کے ذریعے دینا چاہتے ہیں براہ راست مذاکرات کے میز پر آکر دیں۔ اپنی شرائط وزیراعظم اور دیگر حکمرانوں کے سامنے رکھ دیں۔ اگر اسکے بعد بھی صاحب اقتدار ان کی شرائط نہیں مانتے ہیں تو پھر آپ کنٹینر پر آکر اپنا بیانیہ عوام کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔مہنگائی میں پسے عوام کو مسائل کے گرد آب سے کس طرح نکلنا ہیں اور ملک کو کس طرح آگے بڑھانا ہے۔ اقتدارمیں موجود جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم کو بھی سنجیدہ ہوکر سوچنا ہوگا۔ مذاکراتی عمل کو اقتدار کو طول دینے کے ٹول کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ تاخیری حربے جتنے بھی اور جس طرف سے بھی ہوں گے ان سے نقصان ملک و قوم کا ہوگا۔ ملک کے مستقبل کو سنوارنا ہے یا بگاڑنا، گیند پولیٹیکل کورٹ میں ہے۔ سیاستدان اب اس بال کو کہاں پھینکتے ہیں،یہ انھوں نے خود فیصلہ کرنا ہے۔ عسکری قیادت کی سیاسی معاملات میں دستبرداری کے بار بار وضاحت کے بعد سیاست کرنے والوں کے پاس حیلے بہانے بچے ہیں نہ ہی وہ عوام کو اپنے جوشیلے تقاریر اور خوشنما خطابات سے مزید گمراہ کرسکتے ہیں۔ میرامشورہ ہے کہ اپنے اناؤں کے پتلے نذر آتش کرکے حقیقی تبدیلی کا خواب پورا کریں۔ دلوں میں ملک کی محبت،عوام کی خدمت اور خدا خوف بھردیں۔