پیر‘ 17 شوال 1444ھ‘ 8 مئی 2023ء
آزاد کشمیر کے شہری نے تمام جائیداد مریم نواز کے نام کر دی
یہ کیا ہو گیا ہے ہمارے جذباتی عوام کو/ یہ جانتے ہوئے کہ لیڈران کرام ان سے مخلص نہیں پھر بھی یہ ایثار کیوں؟ اب دوسری جماعتوں کے جذباتی کارکن بھی ایسی حماقت نہ کر بیٹھے۔ یوں ایک دوڑ لگ جائیگی۔ اس میں نقصان غریب کارکنوں کا ہی ہو گا جو ایسے احمقانہ اقدامات کرتے ہیں۔ لیڈروں کا کیا، ان کو کون سے روپے پیسوں کی کمی ہے۔ وہ تو پہلے ہی سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ٹھاٹ باٹھ کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ کنالوں پر پھیلے گھروں جسے ہم محلات کہہ سکتے ہیں میں رہتے ہیں۔ یہ جو جائیداد ہمارے جذباتی کارکن نے مریم نواز کے نام کی ہے۔ اس کی تو شاید حیثیت ان کے نزدیک اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہ ہو۔ مگر بہرحال اس جذباتی کارکن کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ اس نے اپنے گھر والوں کو اہم نہیں جانا اور یہ قدم اْٹھایا۔ مریم نواز نے اس پر مسرت آمیز حیرت کا اظہار کیا ہے۔ کاش وہ اتنی ہی مالیت کی جائیداد اپنے اس مخلص کارکن کے نام کر کے اسے دوہری مسرت سے د وچار کرتیں تو لوگوں کو اچھا لگتا۔ مگر ہمارے لیڈران کرام میں اتنا حوصلہ کہاں۔ یہ دل جگرا صرف کارکنوں میں ہوتا ہے۔ قربانیاں وہ دیتے ہیں اور حکومت میں عیاشیاں لیڈر کرتے ہیں۔ ناقدین بھی دور کی کوڑی لائے ہیں کہ قانوناً ریاست جموں و کشمیر کی اراضی کوئی غیر ریاستی باشندہ نہیں خرید سکتا یا اپنے نام کر سکتا۔ اس قانونی نکتے کے مطابق تو چلو اس شخص کی جائیداد مریم کے پاس جانے سے بچ جائے گی اور اس کے گھر والے سجدہ شکر بجا لائیں گے کہ جو ہوا بہتر ہوا۔ اب جوابی کارروائی کے لئے دیکھتے ہیں پی ٹی آئی والے کیا کچھ عمران کے نام کرتے ہیں یا بشریٰ بی بی کے نام۔
٭٭٭٭٭
20 ارب روپے سستا آٹا فراڈ کیس کے ملزموں سے ایک ایک پائی نکلوائیں گے۔ پرویز الٰہی
جی ہاں! ہونا بھی یہی چاہیے۔ جو لوگ اس بدترین فراڈ میں ملوث ہیں ان کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔ ویسے بھی یہ الزام کسی اور نے نہیں خود مسلم لیگ کے بڑے رہنما اور سابق وزیر اعظم خاقان عباسی نے عائد کیا ہے۔ اس پر خود ان کے پارٹی رہنمائوں پر بھی حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کہ یہ کیا ہو گیا۔ یہ گھر کا بھیدی کیوں لنکا ڈھانے پر تلے ہوا ہے۔ اگر تو انہوں نے یہ بات ثبوت کے ساتھ کی ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ قوم کے سامنے لائیں۔ اگر یہ الزام سچ ثابت ہوا تو پھر ملوث افراد کو سب کے سامنے کھڑا کر کے چاہے سولی پر لٹکایا جائے یا گولی سے اْڑایا جائے۔ ورنہ اتنے بڑے الزام پر شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ہی دو دو ہاتھ کرلئے جائیں۔ یہ معمولی بات نہیں پورے 20 ارب روپے کا معاملہ ہے جس وقت ملک کے لوگ غریب غربا آٹا آٹا کرتے سڑکوں پر خوار ہو رہے تھے ، لائنوں میں لگ کر مر رہے تھے۔ اس وقت جن کرپٹ فراڈی لوگوں کو ان غریبوں پر ترس نہیں آیا۔ انہوں نے ان مظلوموں کے منہ کا نوالہ چھینا‘ ان انسانوں کے بھیس میں چھپے بھیڑیوں کو انجام تک پہنچانا ہی ہو گا۔ صرف یہی نہیں بقول چودھری پرویز الٰہی ان سے ایک ایک پائی نکلوانا ہو گی۔ ایسے واقعات سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اوپر مسلط اشرافیہ کیسے دنوں میں لکھ پتی سے کروڑ پتی بن جاتے ہیں۔ یہ سب آٹا چور ہوں یا چینی چور، بجلی چور ہوں یا ٹیکس چور اس کام کی بدولت دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہیں اور غریب بد سے بدحال ہوتا چلا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کے حلق میں ہاتھ ڈال کر یہ رقم کون نکال پائے گا کیونکہ ہر طرف اپنے ہی نشیمن پر بجلیاں گراتے نظر آ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
جے ٹی آئی ٹی ٹیم کی کالے بکروں کے حصار میں عمران خان سے تفتیش
اس جدید دور میں یہ توہم پرستی کا عروج سچ کہیں تو ’’دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہے ہیں‘‘ خود کو بڑے جدید اور مذہبی قرار دینے والے لوگ اگر اس طرح کے کاموں میں ملوث ہوں گے تو پھر خود اندازہ کر لیں ہمارے معاشرے کا کیا حشر ہو گا۔ مثل مشہور ہے ’’جیسا راجا ویسی پرجا‘‘ عربی میں بھی کہتے ہیں‘‘ عوام ہمیشہ حاکموں کی نقالی کرتے ہیں یا ان کے دین پر ہوتے ہیں۔‘‘ پہلے ہی ہمارے معاشرے میں جہاں دیکھو گھر گھر میں یہی جادو ٹونے کی مشرکانہ غیر اسلامی روایات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ لوگ خاص طور پر عورتیں اس کام میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی رکھتی ہیں۔ کہیں ساس بہو، کہیں داماد تو کہیں بہن بھائی یا پھر محبوب کو زیردام لانے کے لئے کالے بکرے، مرغیاں، ماش کی دال، بلی کی زبان، الو کا دل یا خون لے کر یہ مذہب سے خارج قسم کے دو نمبر عامل جادوگر یا جعلی پیر اور پیرنی بنے لوگ نجانے کیا کیا ستم ڈھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ طریقے ہمارے اخلاقی زوال کی کہانیاں پیش کرتے ہیں۔ گزشتہ روز جو کچھ جی آئی ٹی کی تفتیشی ٹیم کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ خاصہ تعجب خیز ہے۔ عمران خان بیرون ملک سے پڑھے لکھے ہیں ماڈرن زندگی بسر کرتے آئے ہیں وہ ان چیزوں پر کیسے یقین کر لیتے ہیں۔ اس جادو ٹونے کے کیوں اسیر ہو گئے ہیں۔ عزت، ذلت، دولت ، شہرت ، حکومت ، عروج و زوال اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ کالے بکروں کا حصار کچھ نہیں کر سکتا۔ پہلے ہی ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عملیات کے حوالے سے کافی فسانے زبان زدعام ہیں۔ اب نئی کہانی سامنے آئی ہے۔ انہوں نے کس طرح عمران خان کو قائل کیا ہے کہ شادی، حکومت، جان کی حفاظت ان کے اختیار میں ہے۔ خان صاحب خدارا اس چکر سے باہر آئیں ، کروڑوں لوگ آپ کو چاہتے ہیں وہ کیا سوچ رہے ہوں گے۔ ویسے بھی یہ سارے معاملات اس آیت کے برعکس ہیں جس کی آپ ہر جلسے میں تلاوت کر کے لوگوں کا لہو گرماتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
لوٹی رقم کے جھگڑے پر بلوچستان میں مطلوب دہشت گرد ہلاک
جہاں پیسہ آتا ہے وہاں سے سکون و اطمینان رخصت ہو جاتا ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے۔ خاص طور پر ایسے معاملات میں جہاں پیسہ حرام کے راستے آیا ہو۔ وہاں تو بہت جلد لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں، چاہے وہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر دہشت گردی کے راستے یہ مال کماتے ہوں یا پھر وہ قوم پرستی کے نام پر یہ واردات کر رہے ہوں۔ غلط راستوں سے کمایا مال کبھی زیادہ دیر پاس نہیں رہتا۔ جیسے آتا ہے ویسے ہی جاتا ہے بلکہ کئی مرتبہ تو جاتے جاتے جان بھی لے کر جاتا ہے۔ جن گھروں میں حرام کا مال آتا ہے وہاں کیا حال ہوتا ہے ہم سب صبح شام یہ کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے۔ چوروں، ڈاکوئوں اور کرپٹ عناصر کے گھروں سے خیر و برکت امن و سکون اْٹھ جاتا ہے اور وہ اِن دیکھے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ بلوچستان میں گزشتہ روز قوم پرستی کے نام پر اسلحہ اٹھائے دہشت گردوں کے ایک دھڑے میں جس طرح لوٹ مار کے روپے پیسے میں اپنا اپنا حصہ لینے پر قتل و غارت گری ہوئی‘ اس میں ایک انتہائی مطلوب دہشت گرد محمد آسا عرف ملا ابراہیم اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوا جو لوگ دوسروں کو مار کر لوٹ کر مال جمع کرتے ہیں‘ وہ اسی کی خاطر خود بھی مارے جاتے ہیں۔ ویسے بھی ہماری سکیورٹی فورسز کے بروقت ایکشن کی وجہ سے آج کل دہشت گرد گروپ سہمے ہوئے ہیں۔ ہمارے جوانوں نے جابجا بے شمار جانی قربانیاں دے کر ان دہشت گردوں کمر توڑ دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے کچھ گروپ معافی اور جاں بخشی کے عوض ہتھیار ڈالنے پر آمادہ بیٹھے ہیں۔ یہ گرچہ اچھی خبر ہے مگر پوری طرح تسلی کے بعد ہی کوئی قدم اٹھایا جائے۔ سابق حکومت کی عام معافی کے اعلان کے بعد بہت سے دہشت گرد پھر سرگرم ہونے کی وجہ سے حالات خراب ہوئے ہیں اس لیے صرف ان مسلح گروپوں کو معافی دی جائے جو حقیقت میں امن سے رہنا چاہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭