• news

پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ آج جمع کرائیں :سپریم کورٹ ، حکومت کا پھر انکار 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل کے خلاف درخواستوں کے مقدمہ میں عدالت عظمی نے اٹارنی جنرل کو پارلیمانی اور قائمہ کمیٹی کی کارروائی کا ریکارڈ آج تک فراہم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟۔ جسٹس مظاہر نے پوچھا کہ آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہوسکتی ہے؟۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ میں ہوئی۔ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے درخواست دائر کی ہے۔ مسلم لیگ ن نے بھی عدالتی اصلاحات سے متعلق بل پر فل کورٹ کی تشکیل کیلئے درخواست دے دی ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کی درخواست پر تو ابھی نمبر بھی نہیں لگایا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ توقع ہے پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا، سپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے، عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے، عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے۔ منصور عثمان اعوان نے دلائل میں کہا کہ قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے، عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے، قانون میں جو معاملات طے کئے گئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں، سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیئے تھے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کرسکتی ہے، عدلیہ کی آزادی اور رولز سے متعلق مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہئے، قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو ہوگا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے رولز میں ترمیم کا نہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ کیا ماضی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 1992 تک رولز بنانے کیلئے صدر کی اجازت درکار تھی، صدر کی اجازت کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا، رولز آئین و قانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی۔ جسٹس مظاہر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہوسکتی ہے؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون سازی کے اختیار کے مقدمات مختلف بینچز معمول میں سنتے رہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا اس لئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کئی مقدمات اپنی نوعیت کے پہلے ہوتے ہیں، سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا ہے، کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟۔ ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے یہ تعین کیسے ہوگا کہ کون سا کیس فل کورٹ سنے؟، کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سنا تھا؟۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ افتخار چوہدری کیس سمیت کئی مقدمات فل کورٹ نے سنے؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 1996 سے عدلیہ کی آزادی کے مقدمات سنے جا رہے ہیں، بظاہر یہ آپ کا مقدمہ نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں عوام کا اعتماد فل کورٹ پر ہے، عدالت درخواست گزار کی خواہش پر اپنی کارروائی کیسے ریگولیٹ کرے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا حکومت چاہتی ہے عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے؟۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس مختلف نوعیت کا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ رولز بنانے کا اختیار فل کورٹ کو انتظامی امور میں ہے، اگر 3 رکنی بینچ کے سامنے رولز کی تشریح کا مقدمہ آجائے تو کیا وہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہئے، فل کورٹ اپنے رولز بنا چکی ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ موجودہ کیس میں قانون سازی کا اختیار چیلنج ہے، عدالت نے قانون پر عملدرآمد سے روک رکھا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی منطق سمجھ سے باہر ہے فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور 3 رکنی بینچ کا برا ہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کیا آپ کی منطق یہ ہے کہ رولز فل کورٹ نے بنائے تو تشریح بھی وہی کرے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ کا جواب خود پارلیمنٹ نے اپنے بنائے گئے قانون میں دے دیا ہے، عدالتی اصلاحات بل کے مطابق 5 رکنی بینچ آئین کی تشریح کا مقدمہ سنے گا، یا تو آپ کہیں کہ پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایا ہے، اگر حکم امتناع نہ ہوتا تو فل کورٹ کی استدعا کی جاتی؟، پارلیمنٹ کہتی ہے 5 رکنی بینچ ہو اٹارنی جنرل کہتے ہیں فل کورٹ ہو، لگتا ہے حکومت کی گنتی کمزور پڑگئی ہے کہ یہاں کتنے ججز بیٹھے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا مناسب لگنے پر کی جا سکتی ہے، قانون میں کم سے کم پانچ ججز کا لکھا ہے۔ جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ 5 ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل کیوں نہیں؟۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا ہے کہ قوانین کے خلاف درخواستیں عدالت معمول میں سنتی ہے، ہائی کورٹ بھی قوانین کے خلاف درخواستیں سنتی ہیں، کیا ہائیکورٹ میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی گئی ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں ہے، 2012 میں بھی اسی نوعیت کا مقدمہ سنا جا چکا ہے، کیا لاہور ہائیکورٹ میں 60 اور سندھ ہائیکورٹ میں 40 ججز سماعت کریں گے؟، فل کورٹ کی درخواست میں لکھا ہے کہ بینچ حکم امتناع میں اپنا ذہن دے چکا ہے۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ عدالتی اصلاحات بل ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں اس پر بات نہیں کروں گا۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو ہائی کورٹس فل کورٹ بنانے کی پابند ہوں گی۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ اگر صوبائی اسمبلی بھی اس نوعیت کا قانون بنا دے تو کیا پوری ہائی کورٹ مقدمہ سنے گی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا تمام 8 ججز فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بنے گی؟۔ جسٹس شاہد وحید نے پوچھا کہ کیا بینچ چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کا حکم دے سکتا ہے؟، ایسی استدعا پر عدالت کس قسم کا حکم دے سکتی ہے؟۔ جسٹس عائشہ نے مزید کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر بھی سوال ہے؟، ایسی درخواست انتظامی سطح پر دی جاسکتی ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی گزارش کرسکتے ہیں، ماضی میں ایسی درخواست پر فل کورٹ تشکیل دی جاتی رہی ہے۔ جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ درخواست میں آپ چیف جسٹس کو حکم دینے کی استدعا کر رہے ہیں۔ جسٹس مظاہر کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست میں کی گئی استدعا پر تحفظات ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں لیکن عدالت کو سمجھ آگئی۔ اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی کے مقدمے میں بینچ پر اعتراض کیا تھا، جج پر اعتراض ہوا اور 9 رکنی فل کورٹ نے مقدمہ سنا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں وجوہات بھی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس انورالحق نے اعتراض مسترد کیا تھا، 9 رکنی فل کورٹ میں چیف جسٹس خود بھی شامل تھے، موجودہ درخواست میں کسی جج یا چیف جسٹس پر اعتراض نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اعتراض ہو تو فیصلہ جج نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ مقدمہ سنے یا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے حوالے سے معروضات پیش کرچکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مستقبل کیلئے تعین کرنا ہے کہ بینچ کن حالات میں فل کورٹ کا کہہ سکتا ہے؟، عدالت کو اس حوالے سے مزید معاونت چاہئے۔ فل کورٹ پر اپنے دلائل مکمل کرتے ہوِئے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صرف آئین کی تشریح کا نہیں ہے، آئینی ترامیم کیس میں عدالت نے فوجی عدالتیں درست قرار دیں، عدالتی فیصلہ مستقبل کیلئے ہوتا ہے، شاید 20 سال بعد زمینی حالات اور آئین مختلف ہوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ موجودہ کیس آئینی ترامیم کا نہیں ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے پوچھا کہ کیا ن لیگ کی درخواست پر نمبر لگ گیا ہے؟۔ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ درخواست آج ہی دی تھی، نمبر لگ چکا ہے۔ دلائل دیتے ہوئے وکیل ن لیگ نے کہا کہ حکم امتناع کے ذریعے پہلی مرتبہ قانون پر عملدرآمد روکا گیا، فل کورٹ کیلئے درخواستیں معمول میں دی جاتی ہیں، جسٹس فائز عیسی کیس میں بھی فل کورٹ بینچ بنایا گیا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے جواباً کہا کہ جسٹس فائز عیسی کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا گیا تھا، چیف جسٹس خود جسٹس فائز عیسی کیس نہیں سن رہے تھے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدالتی اصلاحات بل پر سماعت 3 ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی، ساتھ ہی اٹارنی جنرل کو آج تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ عدالت کے حکم کے مطابق اصلاحات بل پر جاری حکم امتناع حتمی فیصلے تک برقرار رہے گا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ ن لیگ کی متفرق درخواست کے پیراگراف 2 پر دلائل ہوئے تو خاموش بیٹھوں گا، بینچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، بینچ کا ایک رکن تین ہفتے کیلئے دستیاب نہیں ہے۔

اسلام آباد (نامہ نگار) عدالت عظمی کی جانب سے طلبی پر حکومت نے سپریم کورٹ بل کی پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ عدالت کو نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ 2023 ءپر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کیے جانے پر حکومت نے عدالت کو ریکارڈ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے پارلیمانی کارروائی کے مطلوبہ ریکارڈ کے لیے سپیکر آفس کو خط لکھا گیا تھا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پارلیمانی کارروائی کے ریکارڈ کا سپیکر اسمبلی کسٹوڈین ہے اور کوئی جواز نہیں کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ دیا جائے۔ واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ ہفتے 2 مئی کو سپریم کورٹ بل سے متعلق پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر رکھا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن