نیب نے قانونی عمل کی مکمل پیروی نہیں کی، فائدہ عمران کو ہو گا: سابق پراسیکیوٹر
اسلام آباد(چوہدری شاہد اجمل) نئے نیب ترمیمی قوانین کی رو سے چیئرمین نیب وارنٹ گرفتاری کے اجراء کا اختیار محدود صورتوں میں استعمال کر سکتا ہے۔ جب ملزم مفرور ہو، شواہد کو ختم کر رہا ہو، جرم کے اعادہ کے شواہد ہوں یا پھر نیب کے متعدد کال اپ نوٹس کے جواب میں پیشی سے گریز کر رہا ہو اور گرفتاری صرف انویسٹیگیشن مرحلے پر ہو سکتی ہے لیکن اس سے قبل انکوائری کے مرحلے پر ملزم کو مکمل انکوائری رپورٹ بمع تفصیلات ثبوت بھجوایا جانا ضروری ہے۔ گرفتاری کے بعد حکومتی نیب ترامیم کے سب سے بڑے مستفید خود عمران خان ہوں گے۔ عمران خان کا ریمانڈ 90 کے بجائے زیادہ سے زیادہ14 دن کا ہو سکے گا۔ ’’نوائے وقت ‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر قانون دان اور نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری وارنٹ سے یہ نہیں پتا چلتا کہ انہیں کبھی سیکشن 9 سی کے تحت انکوائری رپورٹ فراہم کی گئی ہو۔ نئی ترامیم کی رو سے عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ بادی النظر میں جلد بازی میں جاری کئے گئے۔ نئے قانون کی روح یہی ہے کہ چیئرمین نیب گرفتاری کے اختیار کو صرف انتہائی استثنائی صورت میں استعمال کرے اور بغیر گرفتاری کے بھی ریفرنس کی کارروائی چلائی جا سکتی ہے۔ خان صاحب کی ضمانت ہائیکورٹ کے بجائے متعلقہ احتساب عدالت سے ہو گی۔ عمران خان کا وارنٹ گرفتاری یکم مئی کو جاری کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق سیکشن9 سی میں ہونے والی ترمیم کے مطابق نیب پابند تھا کہ وہ عمران خان کو کال اپ نوٹسز بھیجتا اور ان کے ساتھ انکوائری رپورٹ لف کرتا کہ اب یہ انکوائری حتمی ہے اور اب باقاعدہ تحقیقات ہوں گی۔ سابق پراسیکیوٹر کے مطابق نیب نے عمران خان کے خلاف مکمل قانونی عمل کی پیروی نہیں کی ہے۔ جس کا فائدہ ملزم کو ہو گا۔