صورتحال رنگین ہے، سنگین نہیں
سچی بات تو حضرت یہی ہے کہ بلاول بھٹو کو شنگھائی کانفرنس میں شرکت کے لئے بھارت کا دورہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ انہوں نے غلطی کی۔ آخر فائدہ کیا ہوا؟۔ یہی کہ خطے کے دونوں اہم سٹیک ہولڈرز ناراض ہو گئے۔ سٹیک ہولڈر یعنی اِدھر بی جے پی، اُدھر پی ٹی آئی۔ مبصرین ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکے کہ زیادہ ناراض کون ہوا، بی جے پی یا پی ٹی آئی۔ بلاول نے دونوں کو دکھی کیا، بہت ہی بری بات اور پھر اوپر سے کانفرنس کا نام دیکھو، شنگھائی کانفرنس۔ بھلے ہی اس کے مقاصد کچھ اور ہوں، اس نام سے ’’سی پیک‘‘ جیسی ناپسندیدہ اور نامعقول شے کی مہک نہیں آئی؟۔ اس ناگوار مہک سے بچنا ہی چاہیے تھا۔ اب غلطی کی ہے تو نتیجہ بھگتو۔ بی جے پی کا غصہ تو آہستہ آہستہ اتر ہی جائے گا، پی ٹی آئی والوں کاکیسے اترے گا۔
اچھا اگر چلے ہی گئے تھے تو کشمیر کا نام لینے کی کیا ضرورت تھی؟۔ کشمیر کے بھوت سے تو ہم نے 2018ء میں واشنگٹن جا کر نجات حاصل کر لی تھی۔ وائٹ ہائوس میں سہ فریقی کانفرنس ہوئی تھی یعنی ٹرمپ اور عمران کی اور تیسرا فریق تھا/ تھی شری نریندرا مودی جی کی مہان آتما۔ اسی آتما کی اچھا کا پالن ہم نے کیا اور اتنا مزا آیا کہ جیسے ورلڈ کپ پھر سے جیت لیا۔ اب تک اس کا نشہ طاری تھا جو بلاول نے بھارت جا کر کشمیر کا نام لے کر سارے کا سارا کرکرا کر دیا۔
اور دیکھو، بلاول نے بھارتی وزیر خارجہ کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا۔ وہ بھول گئے کہ مودی جی کو یا کسی اور بھارت واسی کو اس طرح سے پرنام کرنا صرف شری عمران جی کا ادھیکار ہے کیسے بھلے لگ رہے تھے عمران جی جب وہ پرنام نمستے کر رہے تھے اور بلاول تو بالکل بھی بھلے نہیں لگ رہے تھے جب وہ سلام نمستے کر رہے تھے۔
٭٭٭٭٭
ایک کلپ صدر مملکت کا دیکھا، آئین پر ایمان تازہ ہو گیا اور جناب صدر کی آئین سے وابستگی اتنی گہری دیکھ کر دلی عقیدت سے لبریز ہو گیا۔
فرما رہے تھے آئین ایک عہد ہے جس سے وفا نبھانی ہے، یہ کیا بات ہوئی کہ سیاستدن جب چاہیں اسے پھاڑ پھوڑ کر پھینک دیں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ آخری الفاظ انہوں نے انگریزی میں ادا کئے یعنی ہائو اِٹ کین ہیپن!۔
مسئلہ یادداشت کی کمزوری کا ہے۔ یاد ہی نہیں آ رہا کہ سیاستدانوں نے کب آئین کو پہلے پھاڑا، پھر پھوڑا۔ جو تھوڑی بہت یادداشت کام کر رہی ہے، وہ تو یہی بتاتی ہے کہ سیاستدان آئین بنایا کرتے ہیں، بندوق والے آمر اسے چیتھڑا قرار دے کر پھاڑا پھوڑا کرتے ہیں۔ سیاستدان تو آئین سازی کے جرم میں سزا اور آمر آئین کو پارہ پارہ کرنے کے صلے میں استثنیٰ اور عدالتی تائید پاتے ہیں۔ ایک جلیس سے پوچھا تو اس نے بھی یہی بتایا کہ (موثر بہ ماضی) بندوق والے آمر اور منصف حضرات آئین کو پھاڑتے اور سیاستدان اسے جوڑتے رہنے کی سعی کرتے رہتے تھے۔ اب کیا ہو رہا ہے، صدر صاحب بھی جانتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ویسے صدر صاحب کے بارے میں خوش گمانی ہی ہے کہ ماضی کی تاریخ کا انہیں بھلے علم نہ ہو، معاصر تاریخ تو بہرحال انہیں یاد ہو گی۔ ابھی کل کی بات ہے۔ ایک ملک کی قومی اسمبلی میں حکومتِ وقت کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ ڈپٹی سپیکر نے اسے پیش ہونے یا اس پر گنتی کی نوبت ہی نہ آنے دی۔ وزیر اعظم نے ووٹنگ کرانے کے بجائے اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس اپنے صدر کو بھیج دی جس نے پانچ منٹ میں وہ ایڈوائس منظور کر کے اسمبلی توڑ دی۔
بعدازاں عدالت نے اسے آئین شکنی قرار دیا۔ آئین شکنی اور آئین کو پھاڑنے اور پھوڑنے میں کیا فرق ہوتا ہے، صدر صاحب یہ تو جانتے ہی ہوں گے۔
اس ملک کے مذکورہ صدر کے بارے میں یہ حکایت بھی تاریخ میں درج ہوئی کہ جب وہ صدر نہیں بنے تھے تو بلوائیوں کا ہجوم لے کر سرکاری ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ حکایت تو ہمارے صدر نے پڑھی ہو گی، امید تو ہے…!
٭٭٭٭٭
فوجی ادارے پر عمران خان کے سنگین الزامات، فوج کے جواب اور پھر عمران خان کے دوبارہ اصرار کہ مجھ پر دو بار قاتلانہ حملہ ایک افسر نے کرایا، کے بعد صورتحال کیا سنگین ہو گئی ہے؟۔ بالکل نہیں، صورتحال سنگین نہیں، ستم ظریفانہ اور رنگین ہو گئی ہے اور یہاں رنگ سے مراد ’’مزاح‘‘ کا رنگ ہے۔
ملاحظہ فرمائیے، تین تین پارٹی رہنمائوں نے اپنے ہی قائد کے الزام کی تردید کر دی ہے کہ خان صاحب کا کہنا ہے کہ وزیر آباد والے حملے کے بعد فوج نے میری الیف آئی آر درج نہیں ہونے دی۔ لیکن پارٹی کے صدر نے چیئرمین صاحب کے اس موقف کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ ایف آئی آر درج ہونے سے میں نے روکا۔ کیا خان صاحب پرویز الٰہی کو ’’فوج‘‘ سمجھ رہے ہیں؟۔ شاید…خان صاحب نے فرمایا میرے پاس ثبوت ہیں کہ حملے فوج نے کرائے۔ ان کے پُرجوش انقلابی رہنما فواد چودھری نے کہا، ہم کیوں ثبوت دیں (مطلب کہاں سے دیں) فوج خود تحقیقات کرائے اور ثابت کرے کہ وہ ملوث نہیں۔ تیسرے رہنما آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم تنویر الیاس ہیں جو خان صاحب کا حسن انتخاب ہی نہیں، حسین ترین حسن انتخاب سمجھے جاتے تھے، اپنے ہم نام نیازی کو ہٹا کر تنویر الیاس کو وزیر اعظم لگایا تھا۔ انہوں نے بیان دیا ہے کہ عمران خان پاکستان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ سردار تنویر الیاس نے پارٹی چھوڑی ہے نہ پارٹی نے انہیں نکالا ہے یعنی وہ بدستور پارٹی کے رہنما ہیں۔ چنانچہ ان کے الفاظ کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ’’میرے چیئرمین ملک کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔
یہ تین تین سرٹیفکیٹ عمران خان کو انہی کے تین رہنمائوں نے عطا فرمائے ہیں۔ اللہ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔
٭٭٭٭٭
فواد چودھری کے بیان سے البتہ ’’اعتزاز ڈاکٹرائن‘‘ یاد آ گئی۔ ڈاکٹرائن‘‘کچھ یوں تھی کہ اگر کوئی کیس ہو اور ملزم نواز شریف کے بجائے کوئی اور ہو تو بار ثبوت الزام لگانے والے پر ہو گا یعنی مدعی کو الزام کے ثبوت دینا ہوں گے اور اگر کیس نواز شریف کیخلاف ہو تو بار ثبوت نواز شریف پر ہو گا، مدعی کا کام محض الزامات لگانا ہو گا، باقی سارا کام نواز شریف کو کرنا ہو گا۔ نہ کر سکے تو ہوگی۔ چنانچہ نواز شریف کو ایون فیلڈ کیس وغیرہ میں اسی ڈاکٹرائن کے تحت سزائے قید سنائی گئی۔ سزا کی اطلاع خود فیض حمید نے جسٹس شوکت صدیقی کو دی کہ ہم نے سزا کا فیصلہ کر لیا ہے، کتنے سال کی ہوئی، یہ ابھی طے ہونا ہے۔ جیسے ہی طے ہو گا جج کو بتادیں گے کہ اتنے سال کی سزا سنانی ہے۔ پھر ویسے ہی ہوا۔
اب فواد حسین نے پھر گویا اسی ڈاکٹرائن کا اعلان کیا ہے۔ ہمارا کام الزام لگانا ہے، بارثبوت اداروں پر ہے لیکن فواد صاحب بھول گئے کہ اس بار جو ٹارگٹ ہے، وہ نواز شریف نہیں ہے، ادارہ ہے۔ پچھلی بار نتیجہ ان کے لیے رنگین نکلا تھا، اب سنگین بھی ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭