آئی ایم ایف: ڈومور کی خواہش یا مخصوص ایجنڈا؟
رواں ہفتے کے دوران آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول ایگری منٹ پر دستخط نہ ہوئے تو مئی میںادارے کے بورڈ کے سامنے پاکستان کاکیس پیش ہونے کا امکان ختم ہو جائیگا۔ آئی ایم ایف کے 17 مئی تک کے بورڈکے اجلاسوں کے مطابق اس معیاد کے دوران جمہوریہ بلیز، گوئیٹے مالا اور لکسمبرگ کے امور بورڈ کے اجلاسوں میں زیر غور آئیں گے تاہم ابھی پاکستان کا نام شامل نہیں، کیونکہ سٹاف لیول ایگری منٹ نہیں ہو سکا ہے۔
معاہدہ کے اعلان کے 4روز کے اندر اندر کسی بھی ملک کا کیس آئی ایم ایف کے بورڈ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔چونکہ آئی ایم ایف پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی یقین دہانیوں سے غیرمطمئن ہے اور اس نے زرمبادلہ کے ذخائر دو ماہ کی درامدات کے مساوی کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔ دوست ممالک کے بعد پاکستان نے مزید ایک ارب ڈالر کی فنانسنگ کی یقین دہانی کرائی مگر آئی ایم ایف پھر بھی مطمئن نہیں ہوا جس سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام ناروا شرائط پوری کرنے اور پیشگی اقدامات کے باوجود وہ پاکستان کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے نہیں کرنا چاہتا اور اسکی کمزوریوں اور مجبوریوں کا فائدہ اٹھاکر اس سے مزید ڈومور کی خواہش رکھتا ہے۔ اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ آئی ایم ایف ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے گریزاں ہے۔ آئی ایم ایف کے اس رویے کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ عالی دماغ مل بیٹھ کر اس سے خلاصی کی کوئی ٹھوس سبیل نکالیں۔ اگر اسکے چکر میں پڑے رہے تو حکمران عوام کو نہ ریلیف دے پائیں گے اور نہ ملک سے غربت کا خاتمہ ہو سکے گا۔ انہیں خود ہی اندازہ لگا لینا چاہیے کہ آئی ایم ایف سے حاصل کئے جانیوالے اب تک کے قرضوں سے نہ معیشت بہتر ہو سکی اور نہ عوام کے حالات میں بہتری آئی۔ اس لئے آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے کے بجائے ہمیں دوست ممالک سے رجوع کرنا چاہیے جو غیرمشروط اور نیک نیتی سے پاکستان کے ساتھ معاونت پر آمادہ ہیں۔