عمران خان کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اور ان کی گرفتاری
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تیرہ مہینے پہلے جب ایوانِ اقتدار سے نکلے تھے اس وقت سے لے کر اب تک وہ مسلسل الزامات کے سہارے اپنی سیاست کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ 2013 ء سے 2018ء تک کے دور میں بھی ان کا رویہ یہی تھا کہ وہ کوئی نہ کوئی الزام گھڑ کر اسے مسلسل دہراتے رہتے تھے۔ ایک سے زائد مواقع پر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ عمران خان دوسروں پر جو الزامات لگاتے ہیں ان کو ثابت کرنے کے لیے نہ صرف ان کے پاس کوئی ثبوت اور شواہد نہیں ہوتے بلکہ وہ کچھ عرصے کے بعد یوٹرن لے کر خود ہی کہنے لگتے ہیں کہ انھوں نے جو الزام لگایا تھا وہ محض ایک سیاسی بات تھی۔ یہ رویہ ان کے غیر ذمہ دار شخص ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور کسی سیاسی رہنما کے بارے میں ایسا تاثر پیدا ہونا نہایت افسوس ناک بات ہے لیکن اس تاثر کو پیدا کرنے کے لیے خود عمران خان ہی ذمہ دار ہیں۔
پہلے عمران خان صرف اپنے سیاسی مخالفین پر الزام تراشی کرتے تھے، پھر انھوں نے امریکا کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیا اور اب فوج کے اعلیٰ افسران پر بھی وہ مسلسل الزام لگا رہے ہیں۔ ان کے ان الزامات پر پہلے تو فوج نے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی تاہم اب مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے ان کی جانب سے ایک اعلیٰ فوجی افسر پر الزامات کو انتہائی غیرذمہ دارانہ، بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔ سوموار کو جاری ایک بیان میں آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں۔ من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی الزامات انتہائی افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہیں۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے فوجی اور انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اشتعال انگیزی اور سنسنی خیز پراپیگنڈے کے ذریعے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہم متعلقہ سیاسی رہنما سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانونی راستے کا سہارا لیں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ادارہ صریحا جھوٹے اور غلط بیانات اور پراپیگنڈے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر نے آئی ایس پی آر کے بیان سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ الزامات کے حل کے لیے قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔ اسد عمر کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ایف آئی آر درج کروانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس قانونی راستے کی حمایت ادارے کی جانب سے ایک بہت مثبت قدم ہو گا۔ علاوہ ازیں، ایک نجی ٹیلی ویژن چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے یہ بھی کہا کہ فوج کے ساتھ کھچاؤ کی صورتحال دور کرنے کے لیے عمران خان اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ون آن ون ملاقات کرنی چاہیے اور دونوں جانب سے جو گلے شکوے ہیں وہ ایک دوسرے سے کر نے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں لیکن ایک حاضر سروس جرنیل کا نام لے کر عمران خان نے اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ ادارے پر نہیں، ایک شخص کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔
اسد عمر اپنی جماعت کے ایک اہم عہدیدار ہیں اور وہ وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں لیکن وہ اس بات کو سمجھنے سے شاید قاصر ہیں کہ فوج کے اعلیٰ افسران کے اقدامات ادارے سے ماورا نہیں ہوتے۔ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) پاکستان کے اہم ترین اداروں میں سے ایک تو ہے ہی، اسے دنیا بھر کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس ایجنسی کے ایک حاضر سروس اعلیٰ افسر پر الزام لگا کر عمران خان دراصل ایجنسی کے کردار کو مشکوک بنانے کی کوشش کررہے ہیں جسے نرم ترین الفاظ میں مذموم قرار دیا جاسکتا ہے۔ عمران خان ملک کے چیف ایگزیکٹیو رہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ملک کے اداروں کا احترام کیسے کرنا ہے۔ ان کی جماعت نے سوشل میڈیا پر پاک فوج اور اس کے ذیلی اور معاون اداروں کے خلاف ایسی گھناؤنی مہم شروع کررکھی ہے جسے کوئی بھی پاکستان دوست کسی بھی صورت قبول نہیں کرسکتا۔
گزشتہ روز بھی اسلام آباد روانگی سے قبل عمران خان نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں آئی ایس پی آر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کرپٹ لوگوں کے خلاف ایکشن لینے سے ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔ عزت صرف ایک ادارے کی نہیں، ہر شہری کی ہونی چاہیے۔ اس وقت قوم کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ ہوں، قوم مجھے پچاس سال سے جانتی ہے۔ مجھے جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے اپنا الزام دہرایا اور کہا کہ جب بھی تحقیقات ہوں گی، ثابت کروں گا کہ یہی وہ آدمی تھا۔ عمران خان کتنے سچے ہیں یہ اب سے پہلے بھی کئی بار واضح ہوچکا ہے اور یہ وضاحت کسی اور نے نہیں بلکہ ان کے اپنے ہی بیانات اور انٹرویوز کے ذریعے ہوچکی ہے۔
القادر ٹرسٹ کیس میں گزشتہ روز ہونے والی عمران خان کی گرفتاری بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ اپنے معاملات میں اتنے صاف نہیں ہیں جتنا پارسائی کا دعویٰ ان کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ ان کی جماعت کو ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کرنے کی بجائے ذرا صبر سے کام لینا چاہیے کیونکہ عمران خان کو ایک مقدمے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جس کا عدالت میں ٹرائل ہونا ہے جس سے واضح ہو جائے گا کہ انھوں واقعی خلافِ قانون کچھ کیا ہے یا نہیں۔ اسی طرح عمران خان کو بھی چاہیے کہ ان کے پاس اگر کسی افسر کے خلاف واقعی کوئی ثبوت ہیں تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں، اور اگر وہ عدالتِ عظمیٰ کے پاس جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تو پھر محض الزام تراشی کر کے لوگوں کی پگڑیاں نہ اچھالیں۔ پاکستان کی پون صدی پر محیط تاریخ میں اب سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ سیاسی رہنما ہونے کا دعویدار کوئی شخص یوں فوج کے اعلیٰ افسران کے نام لے کر بار بار ان پر ایک خاص حوالے سے الزامات لگاتا رہے اور اسکی جماعت اس مذموم پروپیگنڈے کے ذریعے ملکی سلامتی کے لیے ذمہ دار اداروں کے خلاف جگہ جگہ زہر اگلتی دکھائی دے۔ الزام تراشی کا یہ سلسلہ جتنی جلد بند ہو اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ اس سے ایک طرف اداروں کو نقصان پہنچ رہا ہے تو دوسری جانب ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کے لیے راہ ہموار ہورہی ہے۔