سیاسی عدم استحکام : وجوہات اور حل
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ پاکستان سیاسی طور پر آغاز سے ہی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے 8 سال میں سول عسکری بیوروکریسی کی مداخلت اور ڈرائنگ روم پالیٹکس کی وجہ سے سیاسی حکومتیں وقفے وقفے کے ساتھ تبدیل ہوتی رہیں، اس دوران 7 وزیراعظم منتخب ہوئے۔ بھارت کے وزیراعظم نہرو نے تاریخی جملہ کہا،’میں اتنے پاجامے نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیراعظم تبدیل ہو جاتے ہیں‘۔ جنرل ایوب خان نے 1958ء میں پاکستان پر مارشل لاء مسلط کر کے سیاست اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ جمہوریت کا پودا جڑ نہ پکڑ سکا۔ جنرل ایوب خا اپنے دس سالہ دور اقتدار میں پاکستان کو مستحکم سیاسی نظام نہ دے سکے۔ وہ اپنے آئین 1962ء کے مطابق اقتدار سپیکر قومی اسمبلی کے سپرد کرنے کی بجائے جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر کے رخصت ہو گئے۔جنرل یحییٰ نے ملک گیر عوامی احتجاج کے نتیجے میں 1970ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کرائے مگر ان کے نتائج کو تسلیم نہ کیا اور اقتدار اکثریتی لیڈر شیخ مجیب الرحمن کے حوالے نہ کیا۔ سیاسی مسئلے کو فوجی آپریشن سے حل کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے متفقہ آئین کے ذریعے سیاست اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں مارشل لاء نافذ کر کے سیاسی جمہوری نظام کو لپیٹ دیا۔ جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ آمرانہ دور کے بعد 1988ء کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ انھوں نے ماضی کو نظر انداز کرتے ہوئے مفاہمت کے جذبے کے ساتھ سیاست اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی مگر اڑھائی سال کے بعد ہی ان کی حکومت کو بھی ختم کر دیا گیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام جاری رہا اور طاقت ور حلقے میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلتے رہے۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور دس سال تک کنٹرولڈ جمہوریت کے ساتھ آمرانہ دور چلتا رہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت کے بعد 2008ء کے انتخابات میں پی پی پی وفاق اور سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور آصف علی زرداری پاکستان کے صدر منتخب ہوگئے۔ 2010ء میں اتفاق رائے سے آئین میں وسیع پیمانے پر اٹھارویں ترمیم کی گئی۔ یہ ترمیم سیاست میں عسکری مداخلت کو ختم نہ کر سکی اور نہ ہی شفاف انتخابات کا نظام دے سکی۔ زرداری حکومت کو پانچ سال کا موقع ملا جس کے دوران خاندان مضبوط ہوئے مگر سیاست اور جمہوریت مستحکم نہ ہو سکی۔2013ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے دور حکومت میں عمران خان کے طویل دھرنے اور پانامہ کیس کی طویل سماعت کی بنا پر سیاسی عدم استحکام جاری رہا۔ 2018ء میں عمران خان وفاق پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ان کو ایلیکٹڈ وزیراعظم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انھیں سلیکٹڈ وزیراعظم کہا جانے لگا۔ عمران خان کی حکومت کو ساڑھے تین سال کے بعد عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے فارغ کردیا گیا۔ سیاستدان 2008ء سے 2023ء تک پندرہ سال تسلسل کے ساتھ اقتدار میں رہنے کے باوجود سیاسی استحکام پیدا نہ کر سکے جس کے نتیجے میں شدید سیاسی اور معاشی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ پاکستان تاریخ کے سنگین اور تشویشناک سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔پاکستان جاگو تحریک اور پاکستان انٹر فیتھ فورم کے اشتراک سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ڈاکٹر نذیر قیصر ہال میں سیاسی عدم استحکام وجوہات اور حل کے موضوع پر راقم کی صدارت میں ایک فکری نشست منعقد ہوئی جس میں ڈاکٹر امجد علی خاں، طارق مشتاق، طاہر عباس العصری، ایمبیسیڈر (ر) جاوید حسین، اکانومسٹ افتخار الحق، جاوید محمد قصوری، ایم اے قریشی، عبداللہ ملک، کرنل ممتاز حسن، پروفیسر آمنہ اطہر، ڈاکٹر شبانہ صدف، پروفیسر مشکور صدیقی، مقصود حسین خان، انجینئر خواجہ وحید، ملک مختار، ڈاکٹر محمد سلیم، تنویر قریشی، رشید بٹ، ملک شہباز، اعتزاز ہاشمی، اسماء حسن، مسرور حسین نقوی اور ظہیر الحسن نے اظہار خیال کیا۔ مقررین میں اتفاق رائے پایا گیا کہ سیاسی عدم استحکام کی بنیادی وجوہات میں ظاہری اور خفیہ عسکری مداخلت، کمزور عدالتی نظام، کلونیل ذہنیت کی حامل بیوروکریسی، رول ماڈل لیڈروں کا فقدان، سیاست دانوں کی غیر معیاری کارکردگی، غیر معمولی کرپشن، شفاف اور یکساں احتساب کا نہ ہونا، جماعتوں کے اندر جمہوریت کا فقدان، طبقاتی اور اشرافیائی انتخابی نظام، بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے بارے میں بے حسی کا رویہ، آئین وقانون کی حکمرانی نہ ہونا، تعلیم کو نظر انداز کرنا، عوام کا پسماندہ سیاسی شعور، پالیسیوں کا عدم تسلسل، مذہبی و سیاسی انتہا پسندی اور معاشی زوال شامل ہیں۔