مشتعل ہجوم کی پُرکار ”برجستگی“
مجھے ہرگز خبر نہیں تھی کہ عمران خان کو منگل کے روز ہر صورت گرفتار کرنے کا ارادہ باندھ لیا گیا ہے۔ اس دن صبح اٹھتے ہی لیکن جو کالم لکھا وہ سابق وزیر اعظم کے خلاف ”بس بھئی بس“ والی فضا دیکھ رہا تھا۔ بہرحال اب وہ گرفتار ہوچکے ہیں۔الزام کرپشن کا ہے جو عمران خان سے قبل آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے رہ نماﺅں کےخلاف بھی بروئے کار لایا گیا تھا۔نیب نے گویا سپریم کورٹ کے سند یافتہ ”صادق وامین“ کو بھی ”چور اور لٹیرے“ سیاستدانوں کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔
”القادر ٹرسٹ“ کو بنیاد بناتے ہوئے عمران خان کے خلاف جس کارروائی کا آغاز ہوا ہے اس کی ”باریکیاں“ عاشقان عمران فی الوقت سمجھ نہیں پائیں گے۔تحریک انصاف کے قائد کی گرفتاری کو یہ عاشقان اپنی ”ریڈ لائن“ قرار دیتے رہے ہیں۔یہ لائن کراس ہوئی تو وہ ملک بھر میں سڑکوں پر نکل آئے۔ہنگامہ آرائی کی بدولت سوشل میڈیا پر کامل انتشار کا جو ماحول نمایاں ہوا اس نے حکومت کو ٹویٹر اور یوٹیوب جیسی ایپس معطل کرنے پر مجبور کردیا۔
اپنے بیانیے کے فروغ کے لئے تحریک انصاف پاکستان کی وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے سوشل میڈیا کی اہمیت کو دریافت کیا۔ اس کی حرکیات پر کامل گرفت کے حامل ہنر مندوں کو معقول تنخواہوں پر ناقدین ومخالفین کی بھد اڑانے اور ”کپتان“ کو ”کرپٹ سسٹم“ کے خلاف لڑتا ”تنہا مجاہد“ ثابت کرنے کو مامور کیا۔ٹویٹر،فیس بک اور یوٹیوب تحریک انصاف کے کلیدی ہتھیار ہیں۔سوال اٹھتا ہے کہ وقتی طورپر ان سے محروم ہوجانے کے بعد عاشقان عمران احتجاجی تحریک کی شدت برقرار رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ سوشل میڈیا پر کامل انحصار کرنے والی تحاریک کا تجزیہ کرنے والے کئی مستند محققین اگرچہ مصر ہیں کہ ایسی تحاریک ہیجانی کیفیات کی انتہاﺅں کو چھولینے کے بعد بھاپ کی طرح ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہیں۔گزشتہ صدی میں چلی نام نہاد ”عرب بہار“ کا انجام اس ضمن میں دلیل کی صورت پیش کیا جاتا ہے۔
برجستہ اشتعال کے اظہار کے بعد آئندہ تین چار دنوں کے دوران تحریک انصاف کے رہ نما احتجاجی تحریک کی شدت وتوانائی برقرار نہ رکھ پائے تو ریاست وحکومت لوگوں کی توجہ ”القادر ٹرسٹ“ کی تفصیلات کی جانب مبذول کرنے کی کوشش کرے گی۔ اسے ”دورِ حاضر کا سب سے بڑا سکینڈل“ بناکر پیش کیا جائے گا۔خلقت معصوم کو سمجھانے کی کوشش ہوگی کہ اپنے مخالفین کو گزشتہ کئی دہائیوں سے ”چور چور“ پکارتے عمران خان خود بھی ”سادہ اور دریش صفت“ نہیں ہےں۔
عمران خان ”احتساب“ کے جس عمل سے گزریں گے اس کے خلاف یہ بدنصیب برسوں سے دہائی مچائے چلاجارہا ہے۔اکتوبر1999ءمیں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد جنرل مشرف نے جب ”احتساب بیورو“ کی بنیاد رکھی تو اس کے دو کلیدی عہدےدار میرے بے تکلف دوست تھے۔ نجی محفلوں میں انہیں سمجھاتا رہا کہ سیاستدانوں کو جنگی قیدیوں کی طرح قید میں رکھتے ہوئے بدنام اور بے اثر نہیں بنایا جاسکتا۔ وہ قائل نہ ہوئے تو میں اپنے کالموں میں تواتر سے کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار ہوئے کئی افراد کے خلاف بالآخر بنائے مقدمات کی بے اثری کی بابت لکھنا شروع ہوگیا۔ لطیفہ یہ بھی ہوا کہ کئی سیاستدان جو اکتوبر1999ءمیں ”کرپٹ“ ٹھہراکر ”جنگی قیدیوں“ کی صورت رکھے گئے تھے بعدازاں 2002ءکے انتخابا ت کے ذریعے قائم ہوئے حکومتی بندوبست میں نمایاں عہدوں پر فائز رہے۔
تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہی ہے کہ اس سے سبق سیکھنے کو حکمران اشرافیہ کبھی تیار نہیں ہوتی۔عمران حکومت کے دوران سیاسی مخالفین کی زندگی اجیرن بنانے کے لئے نیب کو انتہائی بے دردی سے استعمال کیا جاتا رہا۔ان کے ساتھ ہوئے سلوک کا ذکر ہوتا تو فواد چودھری صاحب جیسے وزراءپنجابی محاورے والا ”پولا“منہ بناکر وہ محاورہ دہرادیتے جوگاجریں کھانے کی وجہ سے پیٹ میں اٹھے درد کا ذکر کرتا ہے۔ عمران خان بطور وزیر اعظم نہایت حقارت سے یہ فرماتے کہ دیانت داروں کو نیب سے گھبرانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہونا چاہیے۔
نیب کی حراست کے دوران مجھے امید ہے کہ وہ جان لیں گے کہ اس ادارے کا ”کلیدی“ ہدف ”احتساب“ نہیں انتقام ہے۔ اس کے قواعد وضوابط اور انتظامی ڈھانچہ فقط یہ سوچ کر تشکیل دئے گئے ہیں کہ حکمرانوں کو ناپسند شخص کو زیادہ سے زیادہ ذلت ورسوائی کا نشانہ کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ عمران خان نیب کی حراست کے دوران میری دانست میں ”بریک“ نہیں ہوں گے۔ جبلی طورپر وہ ایک کھلاڑی ہیں جو اونچ نیچ اور کڑے وقت کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ ”القادر ٹرسٹ“ کے حوالے سے مگر ان کی اہلیہ کو ”شریک مجرم“ بنانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔عمران خان نے چند ہی دن قبل زمان پارک میں جمع ہوئے عاشقان سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنا ”مرشد“ ٹھہرایا تھا۔ اس کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا وہ دنیا سے کنارہ کش ہوئی درویش ہیں جو چھ مہینے ایک ہی کمرے میں تنہابیٹھی رہتی ہیں۔ نیب اگر انہیں بھی گرفتار کرنے کے بعد تفتیش کے مراحل سے گزارنا چاہے گی تو عمران خان کے لئے برداشت کے بندھن برقرار رکھنا کافی دشوار ہوجائے گا۔
ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے ”القادر ٹرسٹ“ سے جڑے معاملات ہی میری توجہ کا مرکز نہیں ۔منگل کے دن عمران خان کی گرفتاری کے بعد مشتعل ہجوم نے ”برجستہ“ انداز میں جن عمارتوں کا رخ کیا اس نے مجھے چونکادیا ہے۔
کالج داخل ہوتے ہی طالب علموں کی چلائی تحاریک کا متحرک کارکن بن گیا تھا۔بعدازاں عمر کا طویل حصہ سیاسی جلسوں اور جلوسوں کی رپورٹنگ کی نذر کیا ہے۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ جن عمارتوں کا ذکر ہوا ہے ”مشتعل ہجوم“ وہاں ”برجستہ“ پہنچ ہی نہیں سکتے۔ حیرانی اس بات پر بھی ہوئی کہ ان عمارتوں کے اندر گھسے ہجوم کے غضب کا اظہار پانچ تصاویر کے ایک سیٹ کے ذریعے ہوا جوواٹس ایپ کے ذریعے ملک بھر میں پھیلادی گئیں۔ مشتعل ہجوم کی ”برجستگی“ سادہ نہیں پرکار تھی۔ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر جیسے رہ نماﺅں کو مذکورہ ”پرکاری“ کے نتائج کا بخوبی اندازہ ہے۔ اسی باعث ان مناظر سے اپنی جماعت کی لاتعلقی پر اصرار کررہے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ ان کی وضاحتیں انگریزی محاورے والے نقصان (Damage) کوکنٹرول نہیں کر پائیں گی۔