ہماری سیاست میں قول و فعل کا تضاد
آج ہمیں آزادی حاصل کئے 75 سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن ہم تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے جذبے، مقاصد اور اہداف کو ابھی تک حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں نے قومی اتحاد، یکجہتی، و ہم آہنگی اور اقدار کا ”حشرنشر“ کر دیا ہے۔ جمہوریت کی آڑ میں انہوں نے اپنے مخصوص سیاسی، ذاتی اور علاقائی مفادات کے حصول کےلئے ہر سطح پر ”آمرانہ رویوں“ کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان پر حکومت کرنے والے ہر حکمران نے اقربا پروری، ذات مفادات کے حصول، کرپشن اور لوٹ مار کرنے کے ”نئے نئے ریکارڈ“ قائم کئے اور اپنے مخالفین کو ”وطن دشمن“ ثابت کرنے اور انہیں ”کھڈے لائن لگانے“ کےلئے ہر حربہ آزمایا جس سے عالمی سطح پر پاکستان کی بے حد ”جگ ہنسائی“ ہوئی۔ ان مفاد پرست سیاست دانوں کی وجہ سے ملک میں جہاں سیاسی افراتفری، ذہنی انتشار، کشیدگی اور دہشت گردی نے فروغ پایا وہاں علاقائی تعصب نے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا۔ انہی وجوہات کی بنا پر پاکستان کو آزادی کے صرف 23 سال بعد سانحہ مشرقی پاکستان جیسے صدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن یہ ایک تلخ اور افسوسناک حقیقت ہے کہ ہم نے اس سانحہ کے بعد بھی اپنی غلطیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں پر قابو پانے کی بجائے ملک کی وحدت اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لئے اپنی ملک دشمن حرکتیں اور سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ہمارے سیاست دان اپنے آپ کو ریاست پاکستان اور اس کے اداروں سے بھی بلند سمجھنے لگے ہیں۔ ہم ”جمہوریت، جمہوریت‘ پاکستان پاکستان اور عوام کی خدمت“ کی گردانیں تو روز ہی سُنتے ہیں لیکن ہمارے ”قول و فعل میں تضاد“ پایا جاتا ہے۔ ظلم اور زیادتی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ہم اقتدار کے حصول کی جنگ میں سب کچھ دا
¶ پر لگا کر ”ملک کی خدمت“ کرنے کے ”جھوٹے دعوے“ بڑی ”ڈھٹائی“ سے کرتے ہیں۔ جب ہم ”تختِ اقتدار“ پر براجمان ہوتے ہیں تو ہمارا ہر ایکشن قیام پاکستان کے مقاصد کے عملاً متضاد ہوتا ہے۔ ہم اپنا ہر قومی دن محض ”دکھاوے کے لئے“ مناتے ہیں اور پھر دن گزرتے ہی لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ ہماری اسی ”بے حسی“ اور ”دکھاوے کی پاکستانیت“ کی وجہ سے ہی ہماری نصابی کتب سے تحریک پاکستان اور قومی رہنما
¶ں کے بارے میں مضامین اور تصاویر آہستہ آہستہ نکلتی جا رہی ہیں جس کا آج تک کسی حکومت نے نوٹس نہیں لیا۔ ہمارا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا بھی اس قومی مسئلے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ ”نوائے وقت“ اپنی شاندار روایت اور ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے تحریک پاکستان، قراردادِ مقاصد اور قومی رہنما
¶ں کی اہمیت، کارناموں کو اُجاگر کرنے کےلئے تسلسل کے ساتھ مصروفِ عمل ہے۔ تحریک پاکستان کے گمنام مجاہدوں، غازیوں اور شہیدوں کی خدمات سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنے کےلئے بھی ”نوائے وقت“ کا کردار قابلِ قدر اور قابلِ فخر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت تحریک پاکستان کی اہمیت، قراردادِ مقاصد، تحریک پاکستان کے رہنما
¶ں، مجاہدوں، غازیوں اور شہدا کی خدمات سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنے کے لئے اِسے قومی تعلیمی نصاب کا حصہ بنائے، حکومت پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو پابند کرے کہ وہ اس قومی خدمت کے لئے اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ہمارے حکمران، سیاسدان، دانشور، رائٹر، سماجی اور مذہبی رہنما
¶ں سمیت قوم کا ہر فرد قومی اتحاد اور یکجہتی کے فروغ کے لئے اپنی اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کرے۔ اس سلسلے میں سب سے بھاری ذمہ داریاں حکمرانوں پر عائد ہوتی ہیں کہ وہ اپنی انتظامی، مالیاتی، تجارتی، معاشی اور سرمایہ کاری کی پالیسیاں نئے سرے سے مرتب کریں اور اس میں پائی جانے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کریں اور عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں جکڑے پاکستان کو قرضوں کی لعنت سے چھٹکارا دلوائیں۔ ہم اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے اپنے صنعتی تجارتی زرعی اور معاشی شعبوں کا ”بھٹہ بٹھا“ چکے ہیں۔ ہم اپنے مینو فیکچرنگ کے شعبے کو تباہ و برباد کر کے غیر ملکی مصنوعات کی منڈی بن چکے ہیں۔ ہماری قومی کمپنیوں کا کاروبار ٹھپ اور ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستانی دولت سے اپنی تجوریاں بھر رہی ہیں۔ دوسری طرف سمگلنگ نے ہماری ”رہی سہی معیشت“ کا بھی ”بیڑا غرق“ کر دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاسی دھینگامشتی اور سیاسی مفادات کی جنگ نے قومی وحدت کا خاتمہ کر کے ملک میں انتشار اور افراتفری کی آگ بھڑکا دی ہے۔ عوام ریکارڈ توڑ مہنگائی اور غربت کے سونامی میں غوطے پر غوطے کھا رہے ہیں جبکہ ہمارے سیاست دان اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے انتشار کی آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ نہ جانے ان میں وطن کی خدمت کا حقیقی جذبہ کب بیدار ہوگا؟ نہ جانے ہماری عوام بھی کب غیر ملکی مصنوعات کی بجائے ملکی مصنوعات کے استعمال پر فخر کریں گے؟ تحریک پاکستان کے شہدائ، مجاہدوں اور غازیوں نے اس آزاد وطن کے حصول کے لئے جو لازوال قربانیاں دی ہیں اس کا احساس ہم کب کریں گے۔