پاکستان بھارت تعلقات: رکاوٹ کیا ہے؟
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے ایک اجلاس کے سلسلے میں بھارت کا دورہ کیا۔ یہ دورہ اس اعتبار تو اہم تھا ہی کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات محدود ہونے کے باوجود پاکستانی وزیر خارجہ بھارت جارہے تھے لیکن وہاں پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے مابین جو سرد مہری دکھائی دی اس کی وجہ سے دورے کی اہمیت مزید بڑھ گئی کیونکہ اس سرد مہری کی باعث ذرائع ابلاغ کو کہنے کے لیے بہت کچھ مل گیا۔ پاکستان میں بہت سے لوگوں نے بلاول بھٹو زرداری کے بھارت جانے کے فیصلے کی مخالفت کی تاہم بین الاقوامی تعلقات سے گہری واقفیت رکھنے والے کئی لوگوں نے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ایس سی او کے اجلاس میں نمائندگی ضرور ہونی چاہیے تھی۔ حمایت کرنے والوں میں ایک نام سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا بھی ہے جو نومبر 2002ءسے نومبر 2007ءتک ایک ایسے وقت میں پاکستان کے وزیر خارجہ رہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کا ایک منصوبہ زیر غور تھا۔ اس منصوبے کی تفصیلات ان کی کتاب Neither a Hawk Nor a Dove میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کی جانے والی یہ کوشش اپنی نوعیت کا اولین اقدام نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے بھی اس قسم کی کوششیں کی جاچکی ہیں۔ اگست 1947ءکے وسط تک ایک ہی ملک رہنے والے پاکستان اور بھارت کے درمیان جہاں بہت سی مشترک قدریں ہیں وہیں اختلافات کے پہلو بھی بہت ہیں۔ جب بھی ان مشترک قدروں کا حوالہ دے کر ان ممالک مابین مستحکم تعلقات استوار کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اختلافی پہلو بھی زیادہ واضح ہو کر منظرِ عام پر آ جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کرنے والوں کا کام اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ دونوں طرف ایسے کون سے مسائل ہیں جن کو حل کیے بغیر معاملات میں بہتری لانا قریب قریب ناممکن ہے۔ اس سلسلے میں اہم ترین مسئلہ تو جموں و کشمیر ہی کا ہے جسے اقوامِ متحدہ بھی ایک متنازع علاقہ تسلیم کرتا ہے اور اس کی سلامتی کونسل نے اس تنازع کے حل کے قراردادیں بھی منظور کررکھی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) جیسی شدت پسند جماعت ہے جو نہ تو بھارت کے اندر کسی بھی صورت میں بالعموم تمام غیر ہندوو
¿ں اور بالخصوص مسلمانوں کو قبول کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی بھارت کے باہر کسی ایسے ملک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے حق میں ہے جو مسلم تشخص کا حامل ہو۔ اسی شدت پسند جماعت سے ملک کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بھی متاثر ہے۔ یقینا پاکستان میں بھی بھارت مخالف آوازیں اٹھتی رہتی ہیں لیکن یہاں کوئی ایک بھی ایسی جماعت موجود نہیں جسے شدت پسندی میں آر ایس ایس کے ہم پلہ قرار دیا جاسکے۔ اسی طرح پاکستان کی کوئی ایک بھی قابلِ ذکر سیاسی جماعت ایسی نہیں جو بی جے پی کی طرح نفرت انگیزی کے ایک خاص ایجنڈے کو لے کر چلتی ہو۔ مذکورہ دونوں جماعتوں کی پالیسیاں نفرت انگیزی اور شدت پسندی کے جن اصولوں پر قائم ہیں وہ انھیں کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو مستحکم ہونے دیا جائے، لہٰذا ان کی موجودگی میں بھارت کی کوئی بھی سیاسی جماعت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے منصوبے پر عمل نہیں کرسکتی۔
یہ درست ہے کہ اسی بی جے پی کے شریک بانی اور اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے فروری 1999ءمیں اپنے دورہ
¿ لاہور کے موقع پر دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری لانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تاہم اس واقعے کو ربع صدی گزر چکی ہے۔ اب بھارت کے وزیراعظم واجپائی نہیں ، نریندر مودی ہیں جو ایک شدت پسند شخص کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ مودی کا گزشتہ کم از کم دو دہائیوں کا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ وہ اپنے منصب کو بھی شدت پسندی کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بھارتی ریاست گجرات میں ہونے والے مسلم مخالف فسادات میں بطور وزیراعلیٰ انھوں نے جو کچھ کیا وہ تو تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے لیکن وہ آج بھی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات رکھتے ہیں جس کا واضح ثبوت مختلف اوقات میں منظرِ عام پر آنے والے ان کے ساتھیوں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف بیانات ہیں جن کا برملا اظہار کیا جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری نہ آنے کی ایک بڑی وجہ بھارت کا خطے پر تسلط کا خواب بھی ہے جس کی وجہ سے وہ مسلسل اس کوشش میں لگا رہتا ہے کسی بھی طرح پاکستان کو کمزور کیا جائے۔ اس سلسلے میں وہ بین الاقوامی سطح پر لابنگ میں مصروف رہتا ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بھارت کی طرف سے کئی بار یہ کوشش کی جاچکی ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے لیکن اپنی ان کوششوں کے ضمن میں اسے ہمیشہ ہی منہ کی کھانا پڑی ہے اور اس کی بنیادی وجہ بھارت کا اپنا کردار ہے جس سے بین الاقوامی برادری اچھی طرح واقف ہے۔ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دونوں ریاستیں ایک دوسرے کے حوالے سے اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لائیں اور اس سلسلے میں بھارت کو زیادہ کام کرنے کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ وہاں شدت پسندی پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ ہے، اور جب تک اس شدت پسندی پر قابو نہیں پایا جاتا اس وقت تک بہتر تعلقات کا خواب خواب ہی رہے گا۔