فرسودہ نظام سے چھٹکارا لازم ہے!!!!
70ءکی دہائی کے بعد سے سیاست پر جاگیرداروں اور صنعت کاروں کا مکمل قبضہ ہے اور سیاست میں دولت کا عنصر اس قدر حاوی ہوچکا ہے کہ عام آدمی کے لئے کونسلر کی نشست جیتنا بھی ممکن نہیں رہا اور ملک کا اقتدار مکمل طور پر دولت مندوں کے قبضے میں آچکا ہے۔ سابقہ ہوں یا موجودہ‘ تمام حکمران سیاسی جماعتیں دولت کے بل بوتے پر سیاست کرتی آرہی ہیں ۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ موجودہ نظام کی موجودگی میں ہارس ٹریڈنگ سمیت اکثریت مسائل کا حل ممکن ہی نہیں۔ اب پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ جیسے ادارے ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں اور ان میں اختیارات کی تقسیم کی تشریح کا معاملہ حل طلب ہے لیکن دوسری طرف غریب آدمی فاقہ کشی پر مجبور ہے لیکن اس کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں۔ سفیدپوش طبقہ اپنی سفید پوشی کا بھرم نہیں رکھ پارہا۔ایسا نظام جو عوام کو مسائل کی دلدل میں لے جائے‘ وہ نہ تو ملک کے لئے سودمند ثابت ہوسکتا ہے اور نہ ہی عوام کیلئے۔
انتخابی نظام میں اصلاحات کرکے سب سے پہلے تو ہر سیاسی جماعت کو پارٹی الیکشن کا پابند کیا جائے اور انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرائے جائیں جس سے کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوگا اور ملک بھر میں ہر پارٹی کو اسکی مقبولیت کے مطابق نمائندگی ملے گی۔ متناسب نمائندگی میں دولت کا عنصر سیاست پر اثرانداز نہیں ہوسکے گا اور ہر پارٹی کے منشور کو ووٹ ملے گا اور ہر پارٹی انتخابات سے قبل اپنے امیدواروں کی لسٹ شائع کرے گی اور انتخابات سے دولت کا عمل دخل مکمل طور پر ختم ہوسکے گا۔ موجودہ ہر صوبائی اسمبلی کی نشست کے ایریا کو قومی اسمبلی کی نشست قرار دیا جائے اور ہر قومی اسمبلی کی نشست میں 2صوبائی اسمبلی کی نشستیں بنائی جائیں تاکہ عوام اپنے منتخب نمائندوں تک رسائی پاسکیں۔ سیاست پر دولت مندوں کا مکمل قبضہ ہے اور مخصوص خاندان ملک بھر کے ایوان اقتدار پر قابض ہیں اور یہی مخصوص خاندان ہر حکومت میں لبادہ تبدیل کرکے شامل رہتے ہیں اور ان کا مقصد صرف اپنی دولت کا تحفظ ہوتا ہے‘ تھانے اور پٹوار خانے پر ان خاندانوں کا مکمل قبضہ رہتا ہے اور یہ لوگ سیاست پر خرچ کی گئی اپنی دولت منافع سمیت وصول کرتے رہتے ہیں۔ یہی لوگ قومی اہم اثاثے اپنے من پسند افراد کو اونے پونے فروخت کرکے پھر ان لوگوں سے اپنی سیاست کے لئے اخراجات وصول کر رہے ہوتے ہیں۔ ان مخصوص خاندانوں کا مقابلہ کرنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے اور نظام کی تبدیلی سے ہی سیاست سے دولت کا عنصر ختم کیا جاسکتا ہے۔
ملک بھر میں برطانیہ کی طرز کا بلدیاتی نظام رائج کرکے ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل اور تکمیل بلدیاتی نمائندوں کی ذمہ داری ہو البتہ مقامی ترقیاتی بورڈ میں اس علاقے کے اراکین اسمبلی اور ڈپٹی کمشنرز بھی ممبر ہوں اور ترقیاتی فنڈز ڈپٹی کمشنر کے ذریعے بلدیاتی نمائندوں کی ہدایت کے مطابق خرچ ہوں۔ اس وقت بلدیاتی نظام میں منتخب نمائندوں کو اختیارات حاصل نہیں ہیں۔بلدیاتی انتخابات ہر حالت میں مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں اور بلدیاتی اداروں کی مدت 4سال ہونی چاہئے۔ برطانیہ طرز کا نظام ہی بنیادی عوامی مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے۔یہی نظام ملک بھر میں یکساں نافذ کرکے تمام ناظمین کا برا ہ راست انتخاب ہونا چاہئے ۔ بلدیاتی نظام کو ایسا آئینی تحفظ دیا جائے کہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود بلدیاتی نمائندے بااختیار رہ کر اپنی آئینی مدت ہر صورت پوری کریں اور اس نظام کو وفاقی و صوبائی حکومت نہ چھیڑ سکے۔اپوزیشن اور حکومت مل کر متفقہ آئینی ترمیم کے ذریعے بلدیاتی نظام کو مکمل تحفظ بھی دیں اور ہر صورت بروقت‘ باقاعدگی کے ساتھ بااختیار بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں۔
ہمارے ہاں انتخابی‘ عدالتی اور انتظامی نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے اور موجودہ نظام میں رہتے ہوئے عوام کو ریلیف نہیں مل سکتا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تو ملک کے ہر ڈویژن کو انتظامی صوبہ بنایا جائے ۔ سندھ‘ پنجاب اور کے پی اور بلوچستان کو رقبے کے لحاظ سے فی ایک کروڑ آبادی کو ایک انتظامی صوبہ بنایا جائے اور انتظامی صوبوں کا نام لسانی بنیاد پر نہ ہو کیونکہ صوبوں کے نام لسانی بنیادوں پر ہونے کی وجہ سے ہم بدقسمتی سے اب تک ایک قوم نہیں بن پائے۔
اس وقت جو بلدیاتی نظام رائج ہے وہ آدھا تیتر‘ آدھا بٹیر ہے۔ اختیارات و وسائل بلدیاتی نمائندوں کے پاس ہوں اور ان کے ایم این اے‘ ایم پی اے و سینٹرز میونسپل کارپوریشن‘ ڈسٹرکٹ کونسل و تحصیل کونسل کے ممبرہوں اور مقامی طور پر تمام ترقیاتی کاموں کی منظوری مقامی حکومتوں کے ذمہ ہو جس کے فنڈز کا استعمال مقامی ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے ہونا چاہئے۔ کراچی‘ لاہور‘ ملتان‘ بہاولپور‘ فیصل آباد‘ ڈیرہ غازی خان‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ سرگودھا‘ بنوں‘ پشاور‘ مردان‘ ایبٹ آباد سمیت بڑے شہروں کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا جائے اور اسی تناسب سے انہیں فنڈز کی فراہمی ممکن بنائی جائے تاکہ بڑے شہروں کے مسائل حل ہوسکیں۔ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ اس وقت ملک کے تمام بڑے شہر مسائل کی آماج گاہ بن چکے ہیں جہاں پینے کا صاف پانی بھی عوا م کو میسر نہیں اور سیوریج‘ صفائی ستھرائی کے گھمبیر مسائل ہیں ۔
حکومت اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں وسیع ترین قومی مفاد میں بلدیاتی‘ انتخابی‘ انتظامی اور عدالتی نظام میں تبدیلی کے لئے ایک میز پر بیٹھیں اور ایسا مسودہ متفقہ طور پر منظور کریں جس سے نظام تبدیل ہو اور عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں‘ عوام کو سستا اور فوری انصاف مل سکے ۔شفاف ووٹنگ بہت ضروری ہے‘ اس کے لئے تمام جماعتیں حکومت کے ساتھ بیٹھ کر ایسا نظام متعارف کرائیں کہ ملک میں شفاف ترین انتخابات ہوں اور ہارنے والے بھی نتائج کو تسلیم کریں۔