• news

بین الصوبائی رابطہ سڑکوں اور پلوں پر احتجاجی دھرنا

  فرحان انجم ملغانی
القادر ٹرسٹ کیس میں 60 ارب روپے کی کرپشن کے کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔ جنوبی پنجاب میں بھی عمران خان کی گرفتاری پر شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا اور گرفتاری کی خبر ملنے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی مظاہرے شروع ہوگئے، پی ٹی آئی کے رہنماؤں مخدوم شاہ محمود قریشی ، اسد عمر سمیت دیگر قائدین کی جانب سے ملک بھر میں پرامن احتجاج ریکارڈ کرانے کے ویڈیو پیغامات جاری کئے گئے اسی طرح عمران خان نے بھی اپنی ممکنہ گرفتاری کے حوالے سے پیشگی ویڈیو پیغام ریکارڈ کروا رکھا تھا ۔لوگوں نے گھروں سے باہر نکل کر اپنا شدید ردعمل ظاہر کیا اور انتہائی ناخوشگوار واقعات دیکھنے کو ملے۔ حکومت کی جانب سے دفعہ 144 کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس جزوی طور پر معطل کردی گئی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو بھی بند کیا گیا جس سے غیر یقینی صورتحال میں مزید اضافہ ہوا ،۔ مظاہرین نے ابتدائی ردعمل میں متعدد قومی و صوبائی شاہراہیں بند کردیں۔ تحریک انصاف کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر زرتاج گل عمران خان کی گرفتاری کے فوری بعد ڈیرہ غازی خان میں دریائے سندھ پر قائم غازی گھاٹ پل پر جا پہنچیں اور  اپنے سینکڑوں کارکنوں کے ہمراہ وہاں دھرنا دیکر  احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اسی طرح پل چناب مظفرگڑھ کے مقام پر سابق رکن اسمبلی جمشید خان دستی نے دھرنا دیکر روڈبلاک کردی اس طرح پنجاب کو بلوچستان، سندھ اور کے پی کے سے ملانے والی یہ اہم بین الصوبائی شاہراہ بند ہوگئی اور  گاڑیوں کی کئی کئی میل لمبی لائنیں لگ گئی۔
 ملتان میں پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت یا تو صرف ویڈیو پیغامات تک محدود رہی یا پھر چند مقامات پر فوٹو سیشن کے بعد غائب ہوگئی اور کسی بھی جگہ کوئی منظم اور متاثر کن احتجاجی مظاہرہ دکھائی نہیں دیا تاہم پی ٹی آئی کے حامیوں اور کارکنوں نے کنٹونمنٹ ایریاز میں اپنے طور پر احتجاجی مظاہرے کئے اور اس دوران مظاہرین کو منتشر کرنے اور کینٹ ایریا میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے آنسو گیس شیل فائر کئے گئے اور وہاں پولیس و سکیورٹی اداروں کی نفری بھی موجود رہی۔  بعد ازاں منگل کی صبح پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کی رہائش گاہ غوثیہ کمپلیکس پر دھاوا بولا گیا اور وہاں موجود 9 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ 
ترجمان باب القریش کے مطابق ملتان پولیس نے مخدوم شاہ محمود قریشی کی رہائش گاہ پرباب القریش سیکریٹریٹ آفس کے دروازوں کی بھی توڑ پھوڑ کی گئی اور وہاں موجود مخدوم شاہ محمود قریشی کے 9 کارکنوں اور سندھ کے زائرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ سندھ سے آئے ہوئے زائرین درگاہ حضرت غوث بہاؤ الدین زکریا پر حاضری کے لئے ملتان آئے ہوئے تھے،گرفتار ہونے والوں  میں امجد تنیو ، رفیق تنیو ، امیر سولنگی ، حب علی سولنگی ، وسیم تنیو ، نور حسن مہر ، حاکم تنیو ، عمران پیرزادہ ، نعمان نومی شامل ہیں ۔اسی طرح ملتان پولیس اور سکیورٹی ایجنسیوں نے پی ٹی آئی کے متحرک کارکنان کی فہرستیں بھی  تیار کررکھی ہیں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے لیے انکے گھروں پر چھاپے بھی مارے جارہے ہیں اور متعدد مظاہرین کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ دوسری جانب حکومتی ہدایات کی روشنی میں محکمہ اینٹی کرپشن نے پی ٹی آئی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور عہدیداروں کی خلاف درجنوں مقدمات درج کر لئے ہیں اور ان مقدمات کے تحت بھی گرفتاریوں کا عمل تیز کردیا گیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کے پیش نظر کشیدگی میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے جو کسی بھی طور کمزور معاشی صورتحال کیلئے موزوں نہیں۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے موجودہ کشیدگی کے ملکی معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب ہونگے۔ ملکی سیاست پر بدستور گہری دھند کے بادل چھائے ہوئے ہیں ،پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات ہونگے یا نہیں ہونگے ،کیا حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے مابین ملک بھر میں ایک ہی روز قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر اتفاق رائے ہوپائے گا،یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات آئندہ چند روز میں بھی سامنے نہ آئے تو صورتحال مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔ اداروں کے مابین تناؤ اور ٹکراؤ اب کھل کر سامنے آنے لگا ہے جو کسی صورت اچھا عمل نہیں، سیاسی منظرنامہ اب تیزی سے بدلنا شروع ہوگیا ہے ، اس تمام تر صورتحال کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کرنا بھی ایک مثبت اشارہ تھا مگر یہ مذاکرات بھی ناکام ہوگئے۔ موجودہ بحران اور مسائل کا  بہتر حل سٹیک ہولڈرز کے مابین مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے،محاذ آرائی اور الزام تراشیوں کی سیاست سے ناصرف سیاسی ماحول انتہائی خراب ہوچکا ہے بلکہ اسکے منفی اثرات سب سے زیادہ  ملکی معیشت پر پڑرہے ہیں۔ ابتک کی صورتحال کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب میں انتخابات 14 مئی ہو منعقد ہونا ہیں مگر تاحال حکومت کی جانب سے الیکشن کیلئے درکار فنڈز فراہم نہیں کئے گئے ایسے میں یہ الیکشن ہوتے دکھائی نہیں دیتے تاہم امیدواران کے لیے پارٹی ٹکٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ 20 اپریل مقرر کی گئی تھی جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ  سابقہ شیڈول 20 اپریل کے تحت پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں نے تو اپنے اپنے امیدواران کو پارٹی ٹکٹ جاری کیے اور ان امیدواران نے الیکشن کمیشن کو  انتخابی نشان الاٹمنٹ کی غرض سے پارٹی ٹکٹ جمع کروا دیے مگر سابقہ شیڈول اور اسمیں توسیع کے بعد بھی پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے امیدواران کو پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کئے۔ جس سے یہ تاثر سامنے آیا کہ مسلم لیگ ن  یا تو ان حالات کے تحت انتخابی میدان میں جانے کے لئے تیار نہیں یا پھر وہ اتنی پراعتماد ہے کہ 14 مئی کے انتخابات   کا انعقاد ہی  نا ممکن سمجھتی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں لیگی امیدواران میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے اور لیگی امیدواران کو پارٹی نشان کے بجائے پرائیویٹ نشان الاٹ ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب کے تمام صوبائی حلقوں کیلئے پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کا اعلان تو کردیا ہے مگر ٹکٹوں کی تقسیم پر پی ٹی آئی امیدواران اور کارکنوں کی جانب سے اعتراضات اور تنازعات بھی سامنے آرہے ہیں ٹکٹ نہ ملنے پر چند امیدواران نے تو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسی طرح متعدد ٹکٹ تبدیل کئے گئے اور بیشتر امیدواران پارٹی ٹکٹ کے حصول میں ناکام رہے اگر یہ امیدواران پارٹی پالیسی کیخلاف میدان میں موجود رہے تو پاکستان تحریک انصاف کو اسکا نقصان ہوگا اور پارٹی کارکنوں کے درمیان یہ اختلاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد بھی واضح طور پر دکھائی دیے اور پی ٹی آئی ٹکٹ کے امیدواران سوشل میڈیا پر احتجاجی مظاہروں میں دکھائی نہ دینے پر ان نئے ٹکٹ ہولڈرز پر تنقید کرتے دکھائی دیے۔۔

ای پیپر-دی نیشن