دہشت گردی اور تجارتی رکاوٹیں
پاک افغان وزرائے خارجہ کے اجلاس میں دہشت گردی سے نمٹنے اور دوطرفہ تجارت کے لیے تعاون بڑھانے، دوطرفہ اور ٹرانزٹ تجارت کے حوالے سے علاقائی اور اقتصادی روابط کے فروغ کے لیے تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر اتفاق کیا گیا اور امن وسلامتی کے ساتھ ساتھ تجارت اور روابط سمیت باہمی دلچسپی کے اہم امور پر واضح اور تفصیلی تبادلہ¿ خیال کیا گیا۔ وزرائے خارجہ نے مسلسل اور عملی مصروفیات کو جاری رکھنے کی اپنی خواہش کا اعادہ کیا۔ امن وسلامتی کے حوالے سے دونوں وزرائے خارجہ نے دہشت گردی سے نمٹنے اور دوطرفہ تعاون کو گہرا کرنے کے لیے تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ قائم مقام افغان وزیر خارجہ اور قائم مقام افغان وزیر تجارت و صنعت اعلیٰ سطحی وفود کے ہمراہ 5 مئی سے پاکستان کے دورے پرآئے تھے۔ دو طرفہ ملاقاتوں کے علاوہ، قائم مقام افغان وزیر خارجہ نے گزشتہ دنوں چین، پاکستان، افغانستان سہ فریقی وزرائے خارجہ مذاکرات میں بھی شرکت کی جس میں چینی وزیر خارجہ بھی شریک تھے جہاں تینوں فریقوں نے سیاسی رابطوں، انسداد دہشت گردی کے خلاف تعاون سمیت سہ فریقی فریم ورک کے تحت تجارت، سرمایہ کاری اور رابطہ کاری کے تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔
پاکستان، چین اور افغانستان کے وزراءخارجہ کے اجلاس میںیہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ تینوں ممالک مل کر اس خطے میں معاشی و سیاسی تعاون کو بڑھائیں گئے اور خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔ اس ضمن میں چین اور پاکستان کا موقف یکساں ہے یعنی ایک مستحکم اور خوشحال افغانستان اس خطے میں امن کا ضامن ثابت ہوگا، اس سہ فریقی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں سی پیک بھی زیر بحث آیا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جلد ہی افغانستان کو بھی سی پیک کا حصہ بنالیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے، جس کا یقین کرنا چاہیے، تو اس سے چین کے ون بیلٹ اینڈ روڈ کو بڑی تقویت ملے گی۔ تا ہم اس سہ فریقی وزرائے خارجہ اجلاس میں چین کے وزیر خارجہ نے افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کو یقین دلایا کہ ان کا ملک ہر سطح پر افغانستان کی مددکرتارہے گا تاکہ افغان عوام کی سماجی حالات کو بہتر بنایا جا سکے۔ اس ہی قسم کے خیالات پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری نے بھی کیے۔ انھوں نے کہا کہ ایک مستحکم اور مضبوط افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے بلکہ پاکستان نے افغانستان کی ہر طرح سے اقتصادی اور سیاسی مدد کی ہے تاکہ افغانستان کے عوام ایک خوشحال مطمئن زندگی گزار سکیں ۔
افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنی حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کے شکرگزار ہیں جس نے ہماری کافی مدد کی۔ ہم ہر سطح پر پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں جس میں سینٹرل ایشیا سے گیس پائپ لائن کی تعمیر بھی شامل ہے۔ انھوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔ دوسری طرف، چین کے وزیر خارجہ چن گانگ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان میں سی پیک کے تحت جاری کاموں پر مطمئن ہیں اور امید ظاہر کی کہ سی پیک پروجیکٹس پر کام کرنے والے چینیوں کی حفاظت کے سلسلے میں پاکستان کے عسکری اداروں کے شکر گزار ہیں۔ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ بہر حال پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے اس خطے میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے جو خطے میں دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کا باعث بنے گی۔
دریں اثنا، آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے افغان وزیر خارجہ سے ملاقات میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مشترکہ چیلنجوں سے بہتر طریقے سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ، علاقائی سلامتی، بارڈر مینجمنٹ اور موجودہ سکیورٹی ماحول میں بہتری کے لیے دوطرفہ سکیورٹی میکانزم کو با قاعدہ بنانے کے پہلووں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب قائد اعظمؒ نے طورخم بارڈر کا دورہ کیا تو سر حدی زنجیر کے دوسری طرف جا کر افغان سپاہی سے ہاتھ ملایا اور فر مایا کہ ’پاکستان اور افغانستان دو ملک اور ایک قوم ہیں، یہ سرحد دلوں کو ملانے والی ہے، جدا کرنے والی نہیں‘۔ وقت نے ثابت کیا کہ قائد کا ویژن کس قدر حقیقی تھا، دونوں ممالک کا امن اور بد امنی ہی ایک دوسرے سے منسلک نہیں بلکہ تجارت اور معیشت تک ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ جب ایک جگہ امن کی پھلواڑی مہکتی ہے، تو خوشبو سے دوسرا بھی مستفید ہوتا ہے۔ جب دہشت گردی کی آگ سلگتی ہے تو تپش دونوں جانب محسوس کی جاتی ہے، بھوک ہو یا تو نگری اس کا اثر بھی دونوں جانب یکساں دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان نے افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر امن اور خوشحالی کے انتظار میں ایک طویل جنگ بھگتی ہے۔ قریباً 40 سال کم و بیش 40 لاکھ افغان مہاجرین کی پاکستان نے اس طرح میز بانی کی کہ دنیا کی تاریخ میں ہجرت مدینہ کے بعد اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی، افغان مہاجرین کو کیمپوں میں بند کرنے کے بجائے اپنے وسائل میں شریک کیا اور مکمل آزادی دی۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت کے وزرا ءکی اکثریت پاکستان میں پیدا ہوئی یا اس نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی یا وقت گزارا۔ اس لیے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ہماری خوشیاں بھی ایک ہیں اور غم بھی، لہٰذا افغان وزیر خارجہ کا یہ دورہ اور اس کی مصروفیات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ۔ سہ فریقی مذاکرات اور پاک افغان مذاکرات میں دہشتگردی سے نمٹنے میں ایک دوسرے سے تعاون اور تجارت بڑھانے پر اتفاق خوش آئند ہے۔ افغان بھائیوں کویہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کے تخت کابل پر آنے کی سب سے زیادہ خوشی پاکستانیوں نے منائی تھی اور انھیں توقع تھی کہ طالبان کے برسر اقتدار آنے پر افغان سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہوگی لیکن افسوس یہ کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کی وجوہات کیا ہیں ، ان کی تفصیل میں جائے بغیر لازم ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں ہر طرح کی دہشتگردی کیخلاف دونوں ملک ایکا کریں اور امن کی خاطر ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں تا کہ دونوں کے مشترکہ دشمن کامیاب نہ ہو سکیں ۔
تجارتی حوالے سے بھی افغانستان کیلئے سب سے قریب اور سب سے مناسب پاکستان ہے لیکن بعض بیوروکریٹک رکاوٹوں کی وجہ سے تجارت میں وہ فراوانی نہیں آسکی جس کی توقع کی جا رہی تھی ، لہٰذااس معاملہ میں پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملات کو سادہ بنائے، جن سے سمگلنگ ناممکن اور تجارت آسان ہو سکے جبکہ اس وقت سمگلنگ آسان اور تجارت مشکل ہو چکی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں برا در ملک جب تک سوچ اور پالیسی کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں ہوں گے خوشحالی اور امن دونوں نہیں مل سکتے۔ پاک افغان تعلقات بہتر سے بہتر بنانے کا سلسلہ دونوں ممالک کے امن و سکون کیلئے بہت مفید ہوگا۔اس سے تجارتی، سیاسی، معاشی اور دونوں ممالک کے عوام میں مثبت تبدیلی نظر آئے گی جبکہ پاکستان افغانستان کے روٹ سے سنٹرل ایشیا، روس ویورپ تک تجارت اور دوستی کو مستحکم بناسکتا ہے جس سے یقینا خطہ ترقی کرےگا اور سب ایک دوسرے کے وسائل سے مستفید ہو سکیں گے۔ پاکستانی قوم افغانستان میں امن واستحکام سے آج بہت ہی خوشی محسوس کر رہی ہے۔ ہمارا مذہب اسلام دینی ، علاقائی، لسانی، تہذیبی وتمدنی روایات سب یکساں ہیں اور ہم مستقبل میں بھی بہت ہی قربانیاں دینے والی افغان قوم کی ترقی اور امن کواپنی سر زمین پر زندگی اعلیٰ معیار سے گزارنے کے خواہشمند ہیں اور اسی طرح پاکستان نے افغان بھائیوں کی ہمیشہ اپنی سرزمین پاکستان پر مہمان نوازی کی جس طرح ہجرت مکہ کے بعد مدینہ منورہ میں انصار نے رسول اللہ اور ان کے صحابہ کرام کو خوش آمدید کہا۔