• news

عمران خان کی گرفتاری اور رہائی


حکمران جماعتوں کے لیڈروں کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں عمران خان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جاتا رہا اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ عمران خان کے سلسلے میں عدالتوں کا رویہ رحمدلانہ ہے اور ایک ہی روز کئی کئی ضمانتیں لی جاتی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ عمران خان کی گرفتاری کے سلسلے میں اشتعال انگیز بیانات جاری کرتے رہے۔ ایک بیان میں انھوں نے یہ دعویٰ کر دیا کہ عمران خان کو گرفتار کرکے مچھ جیل بلوچستان میں رکھا جائے گا۔ مسلم لیگ ´(ن) کی مرکزی رہنما مریم نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ انتخابات اس وقت ہوں گے جب ترازو کے دونوں پلڑے برابر کیے جائیں گے۔ اگر میاں نواز شریف گرفتار اور نااہل ہو سکتے ہیں تو لاڈلا گرفتار اور نااہل کیوں نہیں ہو سکتا؟ عمران خان اپنی جان کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے رہے کہ ان پر دو بار قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں، حکومت کی حراست میں ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ ان کے سیاسی مخالفین چونکہ انتخابی میدان میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے، لہٰذا ان کو جسمانی طور پر راستے سے ہٹانے کے لیے ان کی جان کے درپے ہیں۔ تحریک انصاف کے ٹائیگرز اپنے محبوب لیڈر کی حفاظت کرتے رہے اور وفاقی و صوبائی حکومتیں ان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہیں۔ عمران خان کے خلاف جس تعداد میں مقدمات درج کروائے گئے وہ انسانی تاریخ کا نیا ریکارڈ ہے۔ عمران خان جب سے اقتدار سے فارغ ہوئے ہیں وہ تسلسل کے ساتھ پاک فوج کے جرنیلوں پر تنقید کرتے چلے آرہے ہیں، اپنے اقتدار کے دوران ان کا موقف مختلف ہوتا تھا۔ گزشتہ ہفتے انھوں نے ایک بار پھر حساس ادارے کے سینئر جرنیل کا نام لے کر اسے تنقید کا نشانہ بنایا جسے آئی ایس پی آر نے سخت الفاظ میں بے بنیاد، غیر ذمہ دارانہ، قابل مذمت اور ناقابل قبول قرار دیا۔
8 مئی کو عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونے کے لیے لاہور سے روانہ ہوئے ان کو اطلاع مل چکی تھی کہ انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ انھوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ گرفتاری کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ پولیس ان کو وارنٹ گرفتاری دکھائے گی تو وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیں گے، لہٰذا اسلام آباد انتظامیہ کو اخراجات کرنے اور بھاری تعداد میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کرنے کی ضرورت نہیں۔ عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تو رینجرز نے بائیو میٹرک کے لیے وقف عدالتی کمرے کے شیشے توڑ کر غیر مناسب طریقے سے انھیں گرفتار کر لیا جس سے سکیورٹی فورسز کی’ پیشہ وارانہ صلاحیتوں‘ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان بھر میں شدید غیر متوقع اور المناک رد عمل سامنے آیا۔ مبینہ طور پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے لاہور میں کور کمانڈر ہاو¿س( جناح ہاو¿س) کو نذر آتش کردیا اور جی ایچ کیو راولپنڈی کا گیٹ توڑ کر اس کے اندر داخل ہوگئے۔ دہشت اور تشدد کے مختلف واقعات میں 9 افراد جاں بحق ہوئے، سرکاری املاک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ پولیس اور سکیورٹی فورسز امن و امان قائم رکھنے میں ناکام ہوگئیں۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد میں آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کرنا پڑا۔ عمران کے مخالفین کی خواہش ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور پاک فوج کو آپس میں لڑا دیا جائے۔ پنجاب، اسلام آباد اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور فواد چودھری سمیت درجنوں لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے گئے۔
سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے لیڈروں اور کارکنوں کی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن سے اندازہ ہوتا کہ چھاو¿نیوں میں احتجاج کرنا پارٹی پلاننگ کا حصہ تھا۔ پاک فوج کا صبر اور تحمل قابل ستائش ہے، دشمن کی بجائے عوام کے سامنے سرینڈر کرنا کسی بھی قومی فوج کی بڑی خوبی ہوتی ہے۔ عمران خان پر قاتلانہ حملہ کے بعد ایسا شدید ردعمل سامنے نہیں آیا تھا جبکہ لیڈر کی گرفتاری معمول کی کارروائی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے پہلے کبھی اس نوعیت کی منظم ہولناک تخریبی کارروائیاں نہیں کیں۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ شر پسند عناصر کشیدہ صورتحال سے فائدہ اٹھا رہے ہوں۔ تحریک انصاف کے لیڈروں کے مطابق پر تشدد کارروائیاں تحریک انصاف پر پابندی لگوانے کے لیے کرائی جارہی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے افسوسناک اور تشویشناک واقعات کے بعد ان اسباب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو عوام کے دلوں میں ریاستی اداروں کے بارے میں محبت کی بجائے نفرت کے جذبات پیدا کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کو روزگار یا بے روزگاری الاو¿نس دینا پڑے گا۔ امیر اور غریب کے درمیان غیر معمولی فرق ناقابل قبول اور نا قابل برداشت ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان خراج تحسین کے مستحق ہیں جنھوں نے حساس اور سنگین صورتحال میں 8 روزہ ریمانڈ پر نیب کی حراست میں عمران خان کو بے مثال قانونی ریلیف دے کر تحریک انصاف کے کارکنوں کے غصے اور اشتعال کو ختم کیا اور امن و امان بحال ہو سکا۔ حکمران ریاستی تشدد اور اشتعال سے گریز کریں اور عمران خان ضد کی بجائے لچک کا مظاہرہ کریں۔

ای پیپر-دی نیشن