عمران خان کی ضمانت منظور قانون سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے
پاکستان تحریک انصاف کی پریشانیاں وقتی طور پر ٹل گئی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی دو ہفتے کے لیے عبوری ضمانت منظور کر لی ہے جبکہ 9 مئی کے بعد درج ہونے والے کسی بھی مقدمے میں 17 مئی تک گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ عمران خان کی جانب سے حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کا خصوصی ڈویژن بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل تھے۔ منگل کے روز اسی عدالت کے احاطے سے عمران خان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تھی جس کے بعد انھیں دو روز تک حراست میں رکھنے کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عدالت نے انھیں اپنی تحویل میں لے کر پولیس لائنز ریسٹ ہاو¿س میں رکھنے کا حکم دیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ عمران خان جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوں۔
سپریم کورٹ عمران خان کی رہائی کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران عدالت کے حکم پر جب عمران خان کو پیش کیا گیا تو اس موقع پر چیف جسٹس کا عمران خان کے ساتھ رویہ غیر معمولی طور پر مشفقانہ تھا جس کی وجہ سے چیئرمین پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین کو اس طرزِ عمل پر اعتراضات اٹھانے کا موقع ملا۔ اس سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی چیف آرگنائزر مریم نواز شریف نے ردعمل دیتے ہوئے سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ چیف جسٹس صاحب کو آج قومی خزانے کے 60ارب ہڑپ کرنے والے وارداتیے کو مل کر بہت خوشی ہوئی اور اس سے بھی زیادہ خوشی انھیں اس مجرم کو رہا کر کے ہوئی۔ اسی طرح وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے سپریم کورٹ میں سماعت پر ردعمل میں کہا کہ جب عدالتیں مجرموں، دہشت گردوں اور مسلح جتھوں کی پناہ گاہیں بنا دی جائیں تو مجرم عدالت کے احاطے سے گرفتار ہوگا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کو عدالتوں سے جس طرح ریلیف مل رہا ہے اس کی نظیر ڈھونڈنا مشکل ہے۔ اس سے ان کے سیاسی مخالفین تو عدالتی نظام پر اعتراضات اٹھا ہی رہے ہیں، عوام کے ذہنوں میں بھی بہت سے سوالات پیدا ہورہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سربراہ سے قبل تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما نہ صرف مختلف مقدمات میں گرفتار ہوئے بلکہ ان میں سے بہت سوں نے کئی کئی ماہ جیلوں میں بھی گزارے لیکن کسی کو بھی عدالت کی طرف سے اس قسم کا ریلیف نہیں دیا گیا جیسا عمران خان کو ملتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس صورتحال میں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو تو شاید کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا لیکن ریاست اور اس کے ادارے کمزور ہورہے ہیں اور ان پر عوام کا اعتماد ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس صورتحال کو ریاست کے تمام ستونوں کے لیے لمحہ¿ فکریہ ہونا چاہیے۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر عمران خان نے سماعت کے دوران آنے والے وقفے میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہی فرد تمام واقعات کا ذمہ دار ہے اور وہ ہے آرمی چیف۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کو خدشہ تھا کہ میں اقتدار میں آ کر اسے ڈی نوٹیفائی کر دوں گا، میں نے کسی کو ڈی نوٹیفائی نہیں کرنا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مجھ پر دو قاتلانہ حملے ہوئے اور میں نے صرف اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور اسے بھی رد کر دیا گیا۔ عمران خان دوسروں پر بے بنیاد الزامات لگانے کی ایک لمبی تاریخ رکھتے ہیں اور کئی بار یہ ثابت ہوچکا ہے کہ وہ جو الزامات لگاتے ہیں ان کے حق میں پیش کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔
جمعرات کو عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم محمد شہباز شریف نے قومی سلامتی کا جمعہ کو طلب کیا گیا اجلاس ملتوی کردیا اور نئی صورتحال پر مشاورت کے لیے اتحادیوں سے رابطہ کیا۔ قانونی ٹیم نے وزےراعظم کو سپرےم کورٹ کے فےصلے کے مختلف پہلوو¿ں اور اس کے مضمرات کے حوالے سے برےفنگ دی۔ ادھر، وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ مارشل لاءلگنے کا تو کوئی امکان نہیں، البتہ حالات کا تقاضا ہوا تو ایمرجنسی لگ سکتی ہے۔ اسی طرح وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے لیے مکمل طور پر آئینی اور قانونی طریقہ کار اپنانا ہوگا لیکن کسی کو کالعدم قرار دینے کے حق میں نہیں ہوں، یہ آخری آپشن کے طور پر ضرور موجود ہے۔
سیاسی قیادت اس وقت جس رسہ کشی میں الجھی ہوئی ہے اس کے جلد ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اس صورتحال میں عام آدمی مسلسل پستا چلا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں، عمران خان کو جس طرح مختلف مواقع پر ریلیف دیا جارہا ہے اس سے عوام کو واضح طور پر یہ پیغام مل رہا ہے کہ قانون سب کے لیے یکساں نہیں ہے بلکہ کچھ افراد اور گروہ ایسے ہیں جنھیں غیر معمولی شفقت کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ اگر ریاستی ستونوں نے اس موقع پر عوام کا ریاست پر اعتماد بحال نہ کیا تو آنے والے وقت میں ریاست اور اس کے اداروں کی مشکلات بہت زیادہ بڑھ سکتی ہیں۔