• news

ریلوے کی حفاظت کیجیے 

پچھلے سال جولائی اگست میں ہونے والی ریکارڈ بارشوں کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان ریلوے کو ہوا۔ سیلاب سے نہ صرف متعدد ریلوے لائنز زیر آب آگئیں بلکہ کئی پل بھی شدید متاثر ہوئے۔ کئی علاقوں سے ملک کے دیگر حصوں کا رابطہ منقطع ہو گیا یا جن میں روہڑی، سکھر، کوئٹہ وغیرہ شامل ہیں۔ سیلاب کے اثرات اتنے زیادہ تھے کہ ادارہ کئی ماہ تک ان سے باہر نہ آ سکا۔ ہمیں ان دو ماہ میں تقریباً سوا پانچ سو ارب روپے کا نقصان سہنا پڑا۔ ملک کے کسی بھی دوسرے ادارے میں اتنا بڑا نقصان برداشت کر کے دوبارہ اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہونے کی شاید سکت نہ ہوتی۔ یہ پاکستان ریلوے اور اسکے محنتی ملازمین ہی تھے جنھوں نے انتھک محنت سے پاکستان ریلوے کے آپریشن کو پورے ملک میں بحال کرنے میں اپنا لازوال کردار ادا کیا۔
اس وقت پاکستان ریلوے کی 90 ٹرینیں چل رہی ہیں اور ہم اس کوشش میں ہیں کہ آنےوالے چند ماہ میں یہ تعداد 100 کا ہندسہ عبور کرے۔ اسکے لیے وسائل کی شدید کمی کے باوجود بھرپور تگ و دو جاری ہے۔ گرین لائن کی شاندار کامیابی کے بعد شالیمار ایکسپریس میں بھی مسافروں میں اپنی مقبولیت ظاہر کی ہے۔ اس وقت ہم بہاو¿الدین زکریا ایکسپریس کی بحالی پر کام کر رہے ہیں جو جلد ہی اپنے پرانے روٹ پر آپ کو رواں دواں دکھائی دےگی۔ پاکستان ریلوے کے ریونیو میں اضافہ کرنے کیلئے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کی ہدایات کی روشنی میں ہم نے برانڈنگ پر اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے جس سے ہمیں دو سال میں کم از کم ایک ارب روپے آمدن کی توقع ہے۔ ابھی برانڈنگ کا آغاز بڑے اسٹیشنز سے کیا جا رہا ہے۔ کامیابی حاصل ہونے پر اس کا دائرہ¿ کار چھوٹے اسٹیشنز اور شہروں تک بڑھا دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ریلوے زمینوں سے کمرشل مقاصد کے ذریعہ ریونیو کے حصول کیلئے بھی کام جاری ہے جس سے ادارے کو معقول آمدن کی توقع ہے۔میں ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان ریلوے ان گنے چنے اداروں میں سے ہے جنھوں سے تنخواہوں اور پنشن کے حوالے سے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ ادائیگی براہِ راست ملازمین اور پنشنرز کے اکاو¿نٹس میں کی جائے۔ اس سلسلے میں بات چیت حتمی مراحل میں ہے۔ معاملہ طے ہونے کے بعد تنخواہ اور پنشن ہر ماہ کی یکم یا دو تاریخ کو مل جایا کرےگی۔ پاکستان ریلوے کبھی بھی آپریشنل خسارے میں نہیں رہا۔ اب جیسے جیسے ہمارے آمدنی بڑھانے کے پروگراموں کا آغاز ہوتا جائے گا، ویسے ہی ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا۔ اپنی تنصیبات اور ٹریکس میں بہتری لانے کیلئے ہم ایم ایل ون پراجیکٹ کے خاکے کو حتمی شکل دینے کے آخری مراحل میں ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری ملکی معیشت کس حد تک ایم ایل ون کو سپورٹ کر سکتی ہے۔ منصوبے پر کام شروع ہوتے ہی آپ کو پاکستان ریلوے میں جدت آتی دکھائی دے گی۔جہاں تک فریٹ بزنس کی بات ہے تو اس وقت ہماری تین سے چار گاڑیاں روزانہ چل رہی ہیں۔ فریٹ ریونیو بڑھانے کیلئے ہم ملک بھر کے چیمبرز آف کامرس اور تاجروں و صنعت کاروں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ چونکہ ہمارے ریٹ پورے پاکستان میں دستیاب تمام ذرائع نقل و حمل سے کم ہیں، اسی لیے مال کی ترسیل کے سلسلے میں ہم پر نہ صرف بھروسا کیا جاتا ہے بلکہ ترجیح بھی دی جاتی ہے۔ اب ملک بھر کے سیکشنز کھلنے پر ان ٹرینوں کی تعداد میں اضافہ متوقع ہے۔ عوام کو بہتر ٹرین ایکسپیرینس دینے کیلئے اب ہر ٹرین میں مینیجر موجود ہوتا ہے جو صفائی ستھرائی کے انتظامات اور صاف پانی کی فراہمی یقینی بناتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی اس معاملے میں بہت حد تک بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ہمارا ادارہ اس پر کام کر رہا ہے۔ مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر بیٹھنے کیلئے بنچز، واٹر کولرز اور دیگر سہولیات میں اضافے کی ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں جن پر آئندہ ہفتوں میں آپ کو عمل ہوتا ہوا نظر آئے گا۔
ریلوے پاکستان کا محفوظ ترین ذریعہ آمد و رفت ہے۔ پسنجر سیفٹی کو مزید بہتر کرنے اور مسافروں میں کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہم نے مسافر آگاہی پروگرام شروع کیا ہے۔ ہم اس ضمن میں ٹرینوں میں پمفلٹ تقسیم کر ہے ہیں اور سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی شیئر کر رہے ہیں تا کہ مسافروں کو ہنگامی حالات میں احتیاطی تدابیر کے بارے مکمل آگاہی ہو سکے۔ پاکستان ریلوے پہلے سے بہتر ہو رہا ہے، محدود وسائل کے باوجود ہم اپنے مسافروں کیلئے ہر ممکن حد تک سہولیات کی فراہمی کیلئے کوشاں ہیں۔ پاکستان ریلوے آپ کا ادارہ ہے، اس کی املاک آپ کی اپنی املاک ہیں۔ ریلوے کا ایک ایک پیچ اور پرزہ آپ کے پیسوں سے لیا گیا ہے۔ ملکی حالات کیسے بھی ہوں، اپنی املاک کو نقصان پہنچانے سے معاملات بہتر نہیں ہوتے۔ اپنے ادارے کا خیال رکھیے، ہم آپ کی خدمت میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن