آئی ایم ایف اور معاشی استحکام
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے سٹاف لیول معاہدے میں تاخیر پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف ہو یا نہ ہو پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ پاکستان کے ڈیفالٹ سے متعلق افواہیں نہ پھیلائی جائیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق معاہدے کے لیے اقدامات کیے۔ عالمی اداروں کو پاکستان سے متعلق ڈیفالٹ کی باتیں نہیں کرنا چاہئیں، دوست ممالک کی جانب سے فنانسنگ کے وعدے کیے گئے جو جلد پورے ہوں گے۔ پاکستان کی جانب سے تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود آئی ایم ایف کا سٹاف لیول معاہدے کی طرف نہ آنا دراصل اس کی بدنیتی ہی کو ظاہر کر رہا ہے تاکہ وہ پاکستان کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اس سے ڈومور کا تقاضا کرسکے یا اپنے کسی مخصوص ایجنڈے کو عملی جامہ پہنا سکے۔ وزیر خزانہ بارہا قوم کو یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا مگر قرائن بتا رہے ہیں کہ پاکستان بیرونی ادائیگیوں سے قاصر ہے، حتیٰ کہ برآمدات وصول کرنے کے لیے بھی اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے سے متعلق عالمی اداروں کی رپورٹیں بھی ریکارڈ پر ہیں جن پر وزیر خزانہ تنقید کر رہے ہیں۔ ممکن ہے وزیر خزانہ درست باور کررہے ہوں مگر اس وقت معیشت کی جو حالت ہے ملک چلانے کے لیے ہمیں مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ روز 8.71 روپے اضافے سے ڈالر 298 روپے تک پہنچ گیا جس سے پاکستانی روپے کی قدر مزید کم ہو گئی اور لیے گئے قرضوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ پاکستان نے جون تک 3.7 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں جبکہ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر صرف 10 ارب ڈالر ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جنھیں بھانپ کر آئی ایم ایف سٹاف لیول معاہدے سے گریزاں نظر آتا ہے۔ اگر تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود آئی ایم ایف معاہدے کی طرف نہیں آتا تو اس سے خلاصی کی کوئی سبیل نکالنا چاہیے۔ وزیر خزانہ جب خود کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف ہو یا نہ ہو پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا تو پھر ایسی کیا مجبوری ہے کہ اس کی ناروا شرائط مان کر ملک و قوم کو مزید مشکلات میں مبتلا کیا جارہا ہے؟