پاکستان کے اضطرابی حالات
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری سے فوج اور عوام میں غلط فہمیوں کے پہاڑ کھڑے ہو گئے ہیں۔ ایک ایسی خلیج بڑھی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ خاص پروپیگنڈے کے تحت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کو مد مقابل کر دیا گیا جس میں عدالتیں عمران خان کے ساتھ ہوں اور ہیجانی کیفیت سے عوام کو مشتعل کیا جاسکے۔ نیز ملک میں خانہ جنگی کا ماحول بنے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی معاشرے کو تباہی کے اس دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے کہ جس کا کوئی معقول حل نظر نہیں آ رہا۔ اس گھڑی ہم سب ایک کٹھن امتحان سے گزر رہے ہیں۔ بلاشبہ ہر کارکن کو اپنے سیاسی قائد اور لیڈر سے محبت ہوتی ہے۔ قائد ہی ہوتا ہے جو آئندہ کے لیے لائحہ عمل طے کرتا ہے، اگر قائد نظر بند ہو جائے تو بقیہ لیڈر شپ کارکنان کے لیے احکامات کا اجراء کرتی ہے۔ اگر پارٹی کی مرکزی قیادت بھی گرفتار ہو جائے تو کارکنان جن کی سیاسی آبیاری بہترین خطوط پر کی ہوتی ہے۔ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ میچور رویے سے پارٹی مینڈیٹ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے جائز مطالبات حاکم وقت کے سامنے رکھیں۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں عوام کی آواز کہیں دب گئی ہے۔ دراصل جمہوریت ہی فوت ہو گئی ہے۔ اس لیے عوام نے اشتعال انگیزی کو اپنا وتیرہ بنا لیا ہے۔ اب کور کمانڈر کے گھر کا جلاؤ گھیراؤ افسوسناک واقعہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے اعلیٰ لیڈران نے توڑ پھوڑ سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ اگر لاتعلقی کا اظہار کیا ہے تو پھر کون ہے جو افراتفری کا پرچار کر رہا ہے؟ کیا بلوائیوں کو کوئی خاص آرڈز جاری کیے گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شر پسند عناصر اپنے ٹارگٹ میں کامیاب ہوتے جا رہے ہیں۔ انھیں تو سرحدوں اور مورچوں پر لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ انھوں سوشل میڈیا کا محاذ سنبھالا اور سوشل ایپس کے ذریعے بندوق چلائی۔ اب موجودہ مخدوش حالات کے تناظر میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کو کوئی سرتوڑ کوشش نہیں کرنی پڑی۔ بھارتی میڈیا مرچ مصالحہ لگا کر پاکستان کے حالات کو انٹرنیشنل سطح پر بیان کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہا۔ عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کروا رہا ہے کہ پاکستان کی مشتعل عوام کو دیکھا جائے کہ کور کمانڈر کا گھر ہی نذر آتش کر دیا۔ ایسے شارٹ ٹیمپرڈ عوام کی رسائی 165 ایٹمی ہتھیاروں تک کچھ بھی مشکل نہیں تو ذرا اندازہ لگائیے کہ دنیا کا کیا حال ہوگا اگر ایک بٹن دب گیا، لہٰذا ان پاکستانیوں سے جن کا بھیجا آؤٹ ہے ایٹم بم قبضے میں لینے کا وقت آ گیا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ طنزیہ انداز میں پاکستانی عوام کو للکارا جا رہا ہے کہ ’تم چلے تھے کشمیر آزاد کروانے۔۔۔‘ بھارتی چینلز پر ایسی تصاویر اور ویڈیوز جاری کی جا رہی ہیں جو پاکستانی عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں، یعنی ان کو ہماری تباہی و بربادی ہی مقصود ہے اس لیے پاکستان کے حالات و واقعات پر گہری نگاہ ہے۔ متعدد بار ’اینٹی آرمی‘ بیانات کو ہیڈ لائنز میں نشر کرکے اپنی تسکین کر رہا ہے۔ بھارتی جنتا کو بتایا جا رہا ہے کہ شکر کریں گاندھی نے ان کو بچا لیا جناح کے پاکستان میں پھر سے ’ملٹری رول‘ شروع ہونے کو ہے۔ غربت سے بلکتے پاکستان میں اگر مارشل لاء لگ گیا تو آئی ایم ایف قرضہ نہیں دے گا۔ اسی غربت سے پاکستان میں لوگوں کے درمیان خانہ جنگی سے حالات ابتر سے ابتر ہوتے جائیں گے۔ یوں پاکستان کا نقشہ ختم، ہماری سمسیا ہی ختم۔ بھارتی میڈیا کے ان جملوں سے دل پہ سخت ٹھیس لگی ہے۔ اللہ کرے دشمنوں کے مذموم عزائم خاک میں ملیں۔
پی ٹی آئی کارکنان سے التماس ہے کہ پرامن رہ کر احتجاج کریں، پرامن احتجاج آئینی حق ہے۔ بھارتی میڈیا علی الاعلان دشنام طرازی کر رہا ہے کہ عمران خان کسی خاص ایجنڈے کے تحت پاکستان میں لاؤنچ کیا گیا۔ اب اس کی پارٹی پر پابندی لگے گی۔ پی ٹی آئی کارکنان اگر حقیقتاً اپنے قائد کے وقار پر آنچ نہیں آنے دینا چاہتے تو خدارا ملکی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں کیونکہ ان کے احتجاج کو آڑ بنا کر خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے، ان کو مہرہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں، جتھے یا گروہ تو ایک جانب رہے۔ پہلی صف میں عوام اور فوج ہیں۔ بیرونی قوتیں برملا اعتراف کرتی ہیں کہ افواج پاکستان کی طاقت اس کے عوام ہیں۔ عوام اور فوج کے پائیدار جوڑ سے پاکستان کو کوئی نہیں توڑ سکتا۔ وہ کیا دور تھا جب 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں عوام فوج کے شانہ بشانہ کھڑے تھے اور دشمن کے دانت کھٹے کردیے کہ دوبارہ میلی نظروں سے دیکھنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
ابھینندن کو عوام نے پکڑ کر فوج کے ذریعے وہ چائے پلائی کہ دنیا انگشت بہ دندان ہو گئی۔ اب عمران خان کی گرفتاری کو مدار بنا کر سوشل میڈیا کے ذریعے بھارت نے پاکستانی عوام، سیاسی لیڈران، عدلیہ، انتظامیہ، افواج کے مابین شکوک وشبہات کی سازش سے پھوٹ ڈلوانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ بھارت کی خواہش ہے کہ مذکورہ بالا حالات طویل ہو جائیں اور شہروں میں فوج کی تعیناتی ہو جائے جس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول پر فوج کی تعداد گھٹ جائے۔ تمام پاکستانیوں سے التماس ہے کہ مفاہمت کی جانب آئیں۔ گفت و شنید ہی واحد ذریعہ ہے۔ فروری میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بھارت اگست یا ستمبر میں پاکستان کے ایک صوبے پر قبضے کی پلاننگ کر چکا ہے۔ اگر حالات اسی ڈگر پر قائم رہے تو خدانخواستہ بھارت مستعدی بھی دکھا سکتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں۔
٭…٭…٭