اب بھی قبضہ ہے چند لوگوں کا
مصلحتوں سے وقت گزاری ریاست میں انتشار کا سبب بنتی ہے جیسا کہ موجودہ حالات ملکی معاملات سے چشم پوشی کرنے سے رونما ہو رہے ہیں ۔ معاشرے میں انصاف کی فراہمی ملک میں استحکام کی ضامن بنتی ہے۔ جس معاشرے میں انصاف کی فراہمی میںجانبداری اور انا کا عنصر پیدا ہو جائے وہ معاشرہ اور ریاست اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ پاکستان آج جتنا نازک دور سے گزر رہا ہے اس کا ادراک کرنے والے مصلحتوں کا شکار ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، دشمن جو 75 سال میں نہ کر سکا وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ایک سیاسی لبادہ اوڑھے گروہ نے کر دکھایا۔ 9 مئی کا دن ایک سیاہ باب کی طرح یاد رکھا جائے گا۔ بے شک ہر محبِ وطن پاکستانی اس واقع سے رنجیدہ ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ جن سیاسی بلوائیوں نے منظم طریقے سے آرمی املاک اور تنصیبات پر حملے کیے اور فوج مخالف نعرے بازی کی، ان کو سیاست میں گھسیڑنے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی جبکہ ان کے عزائم کوئی ڈھکے چھپے نہیں تھے ۔ اسلام آباد دھرنے میں ان کے تمام تر عزائم اور ان کی قابلیت عیاں ہو گئی تھی ۔
سیاسی مبصرین اور قائدین نے اسی وقت اپنی رائے دیتے ہوئے اس سیاسی گروہ کو انتہا پسند اور دوسری ایم کیو ایم قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر یہ اقتدار میں آئے تو ملک کی معیشت اور نوجوان نسل دیوالیہ ہو جائے گی۔ چونکہ بغیر تحقیق کے الزام تراشیوں سے ملک کی سیاسی فضا میں انتہائی درجہ کی کشیدگی اور نفرت نے جنم لے لیا تھا، نفرت اور ننگی الزام تراشیوں نے معاشرے میں تقسیم پیدا کی ایسی دراڑ واضح ہوئی کہ اس سیاسی گروہ نے سیاست میں دشمنی کی حد تک تفریق کو پروان چڑھایا، ایسے غلیظ اور جھوٹے الزام پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی کسی سیاسی جماعت نے اپنے مخالفوں پر نہیں لگائے ہوں گے۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ ’تفہیم القرآن‘ کی جلد 3 کے صفحہ 308 پر سورہ النور کی تفسیربیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’کینہ خصلت لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے کی جب وہ دوسروں کی خوبیاں اور اپنی کمزوریاں صریح طور پر دیکھ لیتے ہیں اور یہ بھی جان لیتے ہیں کہ اس کی خوبیاں اسے بڑھا رہی ہیں اور ان کی اپنی کمزوریاں انھیں گرا رہی ہیںتو انھیں یہ فکر لا حق نہیں ہوتی کہ اپنی کمزوریاں دور کریں اور اس کی خوبیاں اخذ کریں بلکہ وہ اس فکر میں لگ جاتے ہیں کہ جس طر ح بھی ہو سکے اس کے اندر بھی اپنے جیسی برائیاں پیدا کر دیں اور یہ نہ ہوسکے تو کم از کم اس کے اوپر خوب گندگی اچھالیں تا کہ دنیا کو اس کی خو بیاں بے داغ نظر نہ آئیں ‘۔ دورِ رفتہ میں یہی ہوا اور ادارے مصلحتوں کا شکار رہے ۔
عمران خان کی گرفتاری پر ملک میں جو ردعمل دیا گیا وہ کسی صورت پُرامن معاشرے اور جمہوریت پسند سیاسی افراد کا وتیرہ نہیں ہو سکتا، ملک کے محافظوں پر حملے اور ان کے خلا ف نفرت آمیز نعرے لگانے کے علاوہ آرمی تنصیبات پر حملے ملک دشمن قوتوں کا شعار توہو سکتا ہے لیکن کوئی محب ِ ِ وطن شہری ایساسوچ بھی نہیں سکتا۔ عمران خان کی گرفتاری پر مبصرین کا کہنا تھا کہ ٹھوس بنیادوں پر گرفتاری ہی ان کے عزائم کا پردہ چاک کر سکتی ہے، اگر آج گرفتار کیا اور کل عدالتیں سہولت کار بن گئیں تو پھر ضمانتوں کا سلسلہ چلتا رہے گا، اور ایسا ہی ہوا ایک چیف جسٹس نے گرفتاری قانونی قرار دی تو دوسرے چیف جسٹس نے غیر قانونی قرار دے کر ثابت کیا کہ عدلیہ غیر جانبدار نہیں۔ مزید برآںعدالت کا ملزم کو دیکھ کر خوشی کا اظہارکرنا واضح طور پر جانبداری کا اشارہ ہے۔ ریاستِ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کچھ ملکوں کی کھلی مداخلت اور عمران خان کے لیے ہمدردیاں باعثِ تشویش اور معنی خیز ہیں۔ ایک بار پھر زلمے خلیل زاد نے عمران خان کی گرفتاری کی مذمت ہی نہیں کی بلکہ اس نے اسے افسوسناک قرار دیتے ہوئے اس کے دور رس نتائج کی دھمکی بھی دی ہے، اور دنیا کو اس گرفتاری کی مذمت کرنے کے لیے کہا جبکہ پاکستان میں جرمنی کے سفیر نے بھی عمران خان کی گرفتاری پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کی گردش کرنے والی تصاویر پر تشویش ہے ۔
اسی طرح دیگر ممالک کے علاوہ یورپی یونین نے بھی اپنے طور پر ردعمل دے کر پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی۔ یہ وہ عوامل ہیں جن پر ریاست پاکستان کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور اس کا سدِ باب وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے، لہٰذا ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ عمران خان ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف جو کچھ کر چکے ہیںاب اگر ان کے خلاف کارروائی نہ ہوئی تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ با وثوق سیاسی مبصرین کے مطابق، لاہور میں تحریک ِ انصاف کی قیادت نے لبرٹی چوک میں اپنے کارکنوں کو اس مقام کی نشاندہی کی تھی جہاں احتجاج کرنا ہے۔ کارکنوں نے احتجاج کی آڑ میں اس حساس نوعیت کی عمارت میں داخل ہو کر لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کرنے کے بعد آگ لگا دی، فوج کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے دھمکی دیتے دکھائی دیے کہ ’صاحب، ہم نے کہا تھا نا عمران خان کو ہاتھ مت لگانا، لو اب دیکھ لو! ‘ عمراں خان نے فوج کو بدنام کرنے کے لیے عالمی میڈیا کو بھی استعمال کیا اور سوشل میڈیا پر بھر پور تشہیر کر کے فوج کو بدنام کیا ۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو ملک کی عدلیہ کا ضمانتیں دے کر ملزم کی حوصلہ افزائی کرنا انصاف کے تقاضوں کی نفی ہے جبکہ ملک میں غیر متوازی فیصلوں کی وجہ سے ملک معاشی بد حالی کا شکار ہے۔