اتوار‘ 22شوال 1444ھ‘ 14 مئی 2023ء
دوبارہ گرفتار کیا تو پھر ردِعمل سامنے آئے گا: عمران
اب معلوم نہیں یہ خدشہ ہے یا دھمکی، ’’عمرانی سیاست‘‘ نے پہلی بار ملک کی سلامتی کے ضامن ادارے کے ساتھ ٹکراؤکی جو راہ دکھائی ہے اس پر شرپسند عناصر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے بعض لوگ بہت خوش ہیں۔ پہلے یہ خود کو سرخ یا لبرل کہہ کر آزادی کے نام پر من چاہی سہولتوں کے متلاشی رہتے تھے۔ اب پھر وہ اس بار انقلابی بن کر سامنے آئے ہیں۔ ان کا ہدف آج بھی پاکستان کی سلامتی ہے اور وہ مادر پدر آزادی کے خواہاں ہیں۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ شہدائے وطن کی یادگاروں کو جن پر لوگ خراج عقیدت پیش کرتے تھے یہ شرپسند حملہ کر کے انہیں تباہ و برباد کر دیں گے۔ یہ کون لوگ ہیںجنہوں نے ان لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں اتنا زہر بھرا کہ وہ اپنے ہی شہدا کی یادگاروں پر پل پڑے۔ جب سے غیر ملکی مہاجرین کے لئے سرحدیں کھول کر ملک کو مسائلستان بنایا گیا ہے۔ یہ طبقہ وہ ہے جو نہ پاکستان کی تاریخ سے آگاہ ہے نہ جغرافیہ سے جابجا ان کی غیرقانونی بستیاں جرائم و دہشت گردی کے مراکز بن چکی ہیں۔ یہی لوگ جلاؤ گھیراؤ کے نام پر ایک خاص ادارے کے خلاف ہیں۔ عام پاکستانی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اب ’’عمرانی سیاست‘‘ نے ان کی غلامی سے آزادی کی آڑ میں جو سیاسی کھیل شروع کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کل ان کا ٹارگٹ عدلیہ ہوگی اسٹیبلشمنٹ وہ مطلق العنان آمر بننا چاہتے ہیں۔ نوجوانوں کو اپنی غلامی میں لینے والا نجانے کونسی آزادی کا خواہاں ہے۔ کاش! زہریلے پودے کانٹے دار جھاڑیاں کاشت کرنے والے یہ یاد رکھیں کہ یہی ان کے ہاتھ بھی زخمی کر سکتے ہیں۔ اب پھر اپنی دوبارہ گرفتاری کے بعد یہی بدامنی کی دھمکی دینے کا مقصد حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانا ہے۔ اس کے جواب میں ’’غلیل بردار، پٹرول بم اور اسلحہ سے مسلح‘‘ شرپسندوں کو آہنی ہاتھ سے نمٹ کر ہی دیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭
مچھر خوشبودار صابن استعمال کرنے والوں کو زیادہ کاٹتے ہیں: تحقیق
اب ہم کہ ٹھہرے ایشیائی لوگ سانولے رنگ روپ کے غم میں مبتلا رہنے والے ہمارے ہاں جو گورا چٹا ہوتا ہے‘ وہ یورپ کے گوروں کے سامنے سانولا نظر آتا ہے۔ اسی احساسِ کمتری کی وجہ سے ہمارے ہاں سب سے زیادہ رنگ گورا کرنے والی کریمیں، صابن، فیس واش اور طرح طرح لوشن دھڑا دھڑ فروخت ہو رہے ہیں۔ مگر نتیجہ دیکھ لیں ان سے کوئی سانولی سلونی محبوبہ چند آفتاب و چند مہتاب نہیں بنی۔ ہاں پیسہ خوب ضائع ہوا جو رنگ گروپ خدا نے عطا کیا ہے وہی سب سے بہتر ہوتا ہے۔ مگر کیا کریں خوبصورت نظر آنے کی بیماری کو اب بھلا کوئی ان سفید بننے کے شوقینوں سے کہ اگر رنگ کریموں، لوشنوں، صابنوں سے ہونا ہوتا تو پورا افریقہ سیاہ فام افراد سے بھرا پڑا ہے سب سے پہلے یہ پروڈکٹ وہاں جاتے اور ان کی تیرہ شبی کو چودھویں کی شب میں تبدیل کرتے۔ مگر دیکھ لیں ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ اب سائنس دانوں نے طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ زیادہ خوشبو دار صابن استعمال کرنے سے مچھر آپ پر زیادہ فدا ہو سکتے ہیںکوئی اور ہو یا نہ ہو۔ وہ باقی لوگوں کی نسبت خوشبودار صابن خدا جانے لوشن اس میں شامل ہے یا نہیں استعمال کرنے والوں کو زیادہ کاٹتے ہیں۔ اب کیا فرماتے ہیں نت نئے اشتہارات دیکھ کر خوشبو دار صابن و لوشن و فیس واش استعمال کرنے والے معلوم نہیں تھا یہ کمبخت مچھر اتنا حُسن پرست و خوشبو پرست بھی ہوتا ہے۔ چلو اس کا ایک فائدہ کچن میں کام کرنے والی اور مزدور پیشہ خواتین کو ہوگا کہ وہ مچھروں کے کاٹنے سے محفوظ رہیں گے کیونکہ وہ دن ہو یا رات مرچ مصالحوں اور پسینہ کی مہک میں رچی بسی ہوتی ہیں اور مچھر ان کے قریب نہیں پھٹکتے۔
٭٭٭
شرپسند عناصر کی پکڑ دھکڑ جاری، کئی پشیمان
’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت‘‘ والا محاورہ ہم سب نے سنا ہے۔ ان لوگوں نے بھی سنا ہوگا جنہوں نے گزشتہ ایام میں فسطائیت پھیلانے والوں کے آلہ کار بن کر ان کی اشتعال انگیز باتوں میں آکر مختلف شہروں میں وحشت و بربریت کا بازار گرم کئے رکھا۔ اس موقع پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تحمل اور برداشت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے بہت نرمی سے کام لیا۔ ورنہ ہجوم خواہ کتنا ہی بپھرا کیوں نہ ہو انہیں قابو کرنا مشکل تو ہو سکتا ہے مگر ناممکن نہیں۔ اس ہنگامہ آرائی میں لگتا تھا پولیس گلی محلے کی کرکٹ ٹیم ہے اور مظاہرین انٹرنیشنل کرکٹ ٹیم ہے جن کی کوئی گیند خالی نہیں جاتی اور پولیس کی کوئی گیند کارآمد نہیں آتی۔ لگتا تھا یہ ہجوم نہیں تربیت یافتہ غلیل باز اور بم بازوں کا جتھہ ہے۔ اب انکی شناخت ہو رہی ہے بہت سے لوگ قابو آچکے ہیں ان میں زیادہ تر وہ جذباتی نوجوان ہیں جو بس ’’جاگ اُٹھا ہے سارا وطن‘‘ کے جوشیلے نعرے لگاتا ان سیاسی لیڈروں کے پیچھے چل پڑتے ہیں جو میدان گرم دیکھ کر خود تو اپنی لینڈ کروزر میں بیٹھ کر کالی عینک لگا کر بھاگ جاتے ہیں اب یہ نوجوان ان کے کئے کی سزا بھگتیں گے۔ اس لئے بہتر ہے کہ ان لیڈروں کو بھی جو انہیں لے کر چلتے ہیں ہدایات دیتے ہیں، قابو میں کیا جائے اور ان کو بھی انقلابی فلسفے کے فوائد اور مضمرات اسی طرح سمجھائے جائیں جس طرح عام مظاہرین کو سمجھائے جائیں گے۔ یہ ضروری ہے تاکہ انصاف کا ترازو برابر رہے۔ یہ نہ ہو کہ ایک کو پے درپے رعایت دیں بن مانگے اس کا منہ موتیوں اور موتی چور لڈوؤں بھر دیںاور دوسروں کو بات کرنے پر بھی داخل زنداں کیا جائے۔ توڑ پھوڑ کرنے والے اور کروانے والے دونوں برابر کے مجرم ہیں اب تو براہ راست ویڈیو اور تصاویر میں سلطانی گواہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان گرفتاریوں کے بعد بہت سے مردانِ حُر ریڑھے کے آگے جتے ہوئے بے چارے خر ثابت ہوں گے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ جلتے ہمیشہ پروانے ہی ہیں سنہری پروں والے پروانے محفوظ ہی رہتے ہیں۔
٭٭٭
دنیا کا سب سے چھوٹا ملک امریکہ میں ہے
بات ہے ایمانداری کی۔ جہاں جی جان سے کام کیا جائے وہاں خودبخود خیر و برکت کی راہیں نکلتی ہیں۔ اب ہمارے ہاں بڑے بڑے بینک ہیں، کاروباری ادارے ہیں۔ مگر نیتوں میں کھوٹ ہے جس کی وجہ سے آئے روز نت نئے سکینڈلز جنم لیتے ہیں کوئی ٹیکس چور ہے تو کوئی چوری کی راہ دکھاتا ہے۔ اربوں کھربوں کا روزانہ کاروبار ہوتا ہے مگر جسے دیکھیں رو رہا ہے، سکون نام کی کوئی چیز زندگی میں نہیں ہے۔ انگریز یعنی مغربی لوگ لاکھ بُرے سہی مگر یہ سب ان کی ذات کی حد تک ہے۔ ذاتی بُرائیاں اپنی جگہ قابل مواخذہ ہوتی ہیں۔ مگر اجتماعی یا قومی سطح پر وہ جرائم سے اجتناب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں میرٹ، ایمانداری اور نیک نیتی سے کاروبار حیات ہو یا کاروبار سلطنت چلتا ہے۔ اب امریکہ کے اس چھوٹے سے بنک کو ہی دیکھ لیں صرف دو افراد یہاں ملازم ہیں۔ نہ حساب کتاب کی جھنجٹ ہے نہ شور شرابا، نہ اشتہارات کی بھرمار، اس کے باوجود یہ بنک گزشتہ100 سال سے کام کر رہا ہے۔ لوگ اس کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ اس دو رکنی عملے والے چھوٹے سے بینک کا سرمایہ اس وقت تین کروڑ ڈالر ہے۔ اطمینان سے کام چل رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ سیاسی دباؤ میں آکر ناجائز قرضہ نہیں دیتا یا پھر قرضے کو معاف نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں اربوں روپے والے سرمایہ دار کروڑوں کا قرضہ لے کر خود کو دیوالیہ قرار دیتے ہیں اور اطمینان سے قرضہ معاف کروا کے بینکوں اور ملکی خزانے کو بھارتی نقصان پہنچاتے ہیں۔ ورنہ بنگلہ دیش کے گراہم مین بینک کو دیکھ لیں ایک عام شخص نے چھوٹے چھوٹے قرضے دے کر اسے دنیا میں نیک نام بڑا بینک بنا دیا۔ وہاں سوفیصد قرضوں کیا ریکوری ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ یہ کام کر رہے ہیں مگر دفتری اور کاغذی عمل اتنا گنجان ہوتا ہے کہ عام آدمی جو ایمانداری سے قرضہ واپس کرنا بھی چاہتا ہے۔ وہ بھی بددل ہو کر قرضہ نہیں لے پاتا۔ یوں فراڈیئے، دو نمبریئے ڈبل شاہ جیسے زیادہ منافع کا لالچ دے کر اربوں روپے ہر سال ان غریبوں کی جمع پونجی لوٹ کر کھا جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭