ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے سیاسی قیادت کردار ادا کرے
اس وقت ملک میں جو صورتحال بنی ہوئی ہے وہ ریاست اور عوام کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ ملک دشمن عناصر اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افواہیں پھیلا کر عوام میں بے چینی اور اضطراب کو ہوا دے رہے ہیں جس سے بے یقینی پھیل رہی ہے۔ مسلح افواج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف نے اس موقر پر فوجی افسران کے استعفوں سے متعلق افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے عوام کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فوج اپنے چیف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں متحد ہے اور جمہوریت کی مکمل حامی ہے، لہٰذا مارشل لا کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میجر جنرل احمد شریف نے مزید کہا کہ اندرونی شرپسندوں اور بیرونی دشمنوں کی پوری کوششوں کے باوجود فوج آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے زیر متحد تھی، متحد ہے اور متحد رہے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اس کو تقسیم کرنے کا خواب خواب ہی رہے گا، نہ تو کسی نے استعفیٰ دیا اور نہ ہی کسی نے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔
ادھر، اپنی زیر صدارت ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ پی ٹی آئی قیادت نے ملک کو تباہی سے دوچار کر دیا۔ عمران نیازی کے خلاف مقدمات کو شجر ممنوعہ قرار دیا گیا۔ اگر عمران خان خائن اور بددیانت نہیں تو عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرے۔ دوہرے معیار سے انصاف کا جنازہ نکل گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج نیب کے غبن اور کرپشن کے مقدمے میں عدلیہ عمران کے لیے آہنی دیوار بن گئی جبکہ ہمارے مقدمات لٹکائے جاتے تھے۔کل عدالت کے ریمارکس پر حیرت ہوئی۔ اجلاس کے دوران وفاقی کابینہ نے آئی ایس پی آر کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست، آئین، قانون اور قومی وقار کے خلاف منظم دہشت گردی اور ملک و ریاستی دشمنی کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے اور آئین وقانون کے مطابق سخت ترین کارروائی کرکے ملوث عناصر کو عبرت کی مثال بنایا جائے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 9مئی2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے حساس ریاستی اداروں اور عمارتوں سمیت دیگر سرکاری ونجی املاک اور گاڑیوں کو جلانے جیسے تمام واقعات کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ۔
حکمران اتحاد کی طرف سے مذمتی بیانات کے علاوہ کچھ عملی اقدامات پر بھی غور کیا جارہا ہے اور اسی سلسلے میں سپریم کورٹ سے عمران خان کو ریلیف ملنے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) نے کل (سوموار کو) سپریم کورٹ کے باہر دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد میں سربراہی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 9 مئی کے بعد جو واقعات ہوئے عمران خان کے خلاف کارروائی نہ کی جائے، اندازہ لگائیں کہ عدلیہ کہاں کھڑی اور کس طرح آئین اور قانون سے ماورا فیصلے دے رہی ہے، کیا یہ رعایت تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم نوازشریف کو دی گئی؟ انھوں نے کہا کہ آج عمران خان کو وی وی آئی پی پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ ریاست کے محافظ اداروں کی آج توہین کی جارہی ہے۔ ملک کا آئین اور قانون سب کچھ عمران خان کے لیے داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔
دوسری جانب، پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد، شیریں مزاری، سابق ایم این اے عامر ڈوگر سمیت گرفتار افراد کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔ ادھر، لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے لاہور کینٹ علاقے میں جلاؤ گھیراؤ کیس میں گرفتار پی ٹی آئی کے پچاس کارکنوں کا جسمانی ریمانڈ دینے کی پولیس تفتیشی افسر کی استدعا مسترد کرتے ہوئے تمام ملزمان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ ادھر، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ اگر انھیں دوبارہ گرفتار کیا تو پھر وہی رد عمل آئے گا اور وہ نہیں چاہتے کہ ایسی صورتحال دوبارہ پیدا ہو۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے 100 فیصد خدشہ ہے کہ گرفتار کرلیا جاؤں گا، اگر ضمانت منسوخ ہوئی تو مزاحمت نہیں کروں گا۔ عمران خان نے کمرہ عدالت میں غیررسمی گفتگو میں کہا کہ عوام سے خطاب کروں گا اور کہوں گا کہ پرامن رہیں۔ یہ ملک اور فوج اپنی ہے۔ لیڈر کے بغیر عوام کوکنٹرول کرنا مشکل ہے۔
ملک شدید مسائل میں الجھا ہوا ہے لیکن سیاسی قیادت کو پوائنٹ سکورنگ سے فرصت نہیں ہے۔ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ تمام سیاسی رہنما اپنی اپنی اناؤں کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں اور انھیں اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ ان کی اناؤں کی تسکین کی قیمت ملک اور عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ عمران خان کے رویے سے صاف طور پر یہ نظر آتا ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو بھی ملک کا خیر خواہ نہیں سمجھتے اور خود کو وہ ایک ایسے مقام پر فائز کرچکے ہیں جہاں سے وہ اب کبھی بھی نیچے نہیں اتر سکتے۔ حکمران اتحاد میں شامل سیاسی قائدین کے بیانات سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ انھیں عمران خان کے خلاف ہونے والے اقدامات پر توجہ دینے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔ اس صورتحال میں ملک کے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی قیادت اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر مذاکرات کی میز پر بیٹھے اور ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے مثبت کردار ادا کرے۔ ملک دشمن قوتیں اس وقت جشن منا رہی ہیں کہ پاکستان کے ساتھ جو کچھ وہ کرنا چاہتی تھیں وہ ملک کے اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں ہورہا ہے۔ یہ صورتحال افسوس ناک بھی ہے اور سیاسی قیادت کے لیے ایک چیلنج بھی، اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی قیادت اس چیلنج سے کیسے نبرد آزما ہوتی ہے۔