مثبت زاویۂ نگاہ
انتہائی دیانتداری اور اصول پسندی کی شہرت کے حامل فیض کریم پی سی ایس آفیسر تھے۔ دورے پر بھی جاتے تو ٹفن میں گھر سے کھانا لے کر نکلتے۔ وہ مخاطب کو سائیں کہہ کر پکارتے تھے۔ سائیں کہتے ہوئے وہ س اور ش کی درمیانی صوت نکالتے تاہم دفتری عملے اور عوام الناس میں ان کے اس لفظ نے بطور شائیں ہی شہرت حاصل کی۔ وہ ریذیڈنٹ مجسٹریٹ (آر ایم) چنیوٹ تھے۔ پولیس نے ایک تانگہ بان کا ون وے کی خلاف ورزی کرنے پر چالان کر دیا۔ بطور آر ایم انھوں نے تانگہ بان کو پچاس روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ جرمانے کی معافی کے لیے منت سماجت کی ناکامی پر تانگہ بان کہنے لگا کہ اس نے ون وے کی خلاف ورزی بیگم صاحبہ کے حکم پر کی تھی۔ خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ ٹیلیفون پر بیگم سے پوچھنے لگے، ’شائیں! کل آپ تانگے پر بیٹھ کر بازار گئی تھیں؟‘ جواب اثبات میں آنے پر کہنے لگے، ’ ایک اہلکار کو گھر بھیج رہا ہوں۔ جرمانے کی ادائیگی کے لیے پچاس روپے اس کے حوالے کر دینا۔‘
ضلع جھنگ میں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے تو ایک دن ان کا داماد اپنے ایک دوست کا سفارشی بن کر ان کے پاس آیا۔ کام جائز اور قانونی نہ ہونے کی بنا پر فیض کریم نے مشفقانہ اندازِ گفتگو اپناتے ہوئے سفارش ماننے سے معذوری ظاہر کر دی۔ داماد کے حد درجہ طفلانہ اصرار پر فیض کریم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ ایک دم سسر سے بیوروکریٹ کا کامل روپ دھارتے اور تیور بدلتے ہوئے کہنے لگے، ’دیکھو شائیں! میں نے آپ کو اپنی بیٹی دی ہے، ڈپٹی کمشنری نہیں۔‘ڈپٹی کمشنر میانوالی تعیناتی کے دوران ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ نواب آف کالاباغ کے بیٹوں نے اس وقت کے گورنر کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ پروٹوکول کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بطور ڈپٹی کمشنر ان کو بھی وہاں جانا پڑا۔ انتظامی امور زیرِ بحث آنے کے بعد کھانے کا دور چلا تو انھوں نے گورنر صاحب کی کھانے کی میز سے تھوڑا پرے ہٹ کر اپنا ٹفن نکالا اور کھانا تناول کرنا شروع کر دیا۔ میزبان نے ان کے اس طرزِ عمل پر اپنی شدید سبکی خیال کرتے ہوئے گورنر صاحب سے شکوہ کیا تو وہ ترنت کہنے لگے، ’شائیں! یہ سرکاری نہیں، میرا ذاتی مسئلہ ہے۔‘
غالباً 1998ء کی بات ہوگی۔ شیخ رشید احمد ایم این اے، این اے 38، کسی کام کے سلسلے میں جاوید اقبال اعوان ڈپٹی کمشنر راولپنڈی سے ملنے آئے۔ انھوں نے باہر سے آتے ہوئے شیخ رشید احمد کو دیکھ کر ایک فائل کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ شیخ رشید احمد نے ان کے قریب پہنچ کر سلام کیا تو جاوید اقبال اعوان نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا،’شیخ صاحب! اگر میں میٹنگ میں مصروف نہ ہوتا تو آپ کو بیٹھنے کے لیے کہتا‘۔ شیخ رشید احمد بے دلی سے بولے، ’اس وقت میں بھی جلدی میں ہوں۔ پھر کبھی تفصیل سے ملاقات ہوگی۔‘ سی ایس ایس کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے امجد شاہد آفریدی نے اپنے کیریئر کا آغاز اسسٹنٹ کمشنر فورٹ عباس کے طور پر کیا۔ اس وقت کے بااثر وفاقی وزیر چودھری عبدالغفور کے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا اور گھر کی راہ لی۔ صدر غلام اسحاق نے ان کا استعفیٰ نامنظور کر دیا۔ پرویز مشرف کے مارشل لاء کے شروع کے دنوں میں آرمی آفیسرز کی نگرانی میں ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں تو امجد شاہد آفریدی نے چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کو لیٹر لکھ کر اس متوازی نظام کے ساتھ کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے عہدے (ڈپٹی کمشنر بٹگرام) کا چارج چھوڑ دیا۔
ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے محمد عملش پولیس گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایس پی اوکاڑہ تھے۔ انھیں خبر ملی کہ کچھ اشتہاری ایک ایم پی اے کے ڈیرے پر موجود ہیں۔ انھوں نے رات کے پچھلے پہر کامیاب ریڈ کرکے ان کو گرفتار کر لیا۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے صبح سویرے خبر پڑھتے ہی ٹیلیفون کرکے ان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے شاباش دی مگر دوسرے ہی دن اوکاڑہ کے ایم پی ایز کے دباؤ پر ان کا تبادلہ وہاڑی کر دیا۔ ازحد تنک مزاج میمن صاحب (پورا نام یاد نہیں، اگر ہوتا بھی تو احتراماً نہ لکھتا) سیکرٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب ہوا کرتے تھے۔ ایک اہلکار کی انکوائری کی فائل ان کے پاس آئی تو اس نے کسی نہ کسی طرح ان کے والد تک رسائی حاصل کر لی اور ان کو میمن صاحب کے دفتر تک لانے میں کامیاب ہو گیا۔ میمن صاحب نے والد سے دفتر آنے پر دبے لفظوں ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’ آپ خود دفتر آنے کی زحمت کرنے کی بجائے فون کر لیتے یا رقعہ لکھ بھیجتے۔‘ والد سے کیے گئے وعدے کے برعکس میمن صاحب نے اس اہلکار کو دوبارہ اپنے دفتر طلب کرتے ہوئے کہا، ’میں نے تمہیں terminate کر دیا ہے۔ اب جاؤ اور میرے دادا کو میرے دفتر لے آؤ‘۔
کیپٹن (ر) جنید ڈائریکٹر جنرل لوکل گورنمنٹ پنجاب تھے، ان سے ایک ممبر صوبائی اسمبلی نے کسی افسر کی کمائی والی جگہ پر پوسٹنگ کی سفارش کی تو انھوں نے ایم پی اے سے کہا، ’مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ آپ ہمیشہ کرپٹ افسروں کی ہی سفارش کیوں کرتے ہیں؟‘ کامران ظفر کمشنر راولپنڈی 1998ء میں ضلع کونسل کے انتخابات سے قبل ہونے والی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کی بطور ایپلٹ اتھارٹی وکلا اور سائلین سے کھچا کھچ بھرے ہوئے کمرۂ عدالت میں سماعت کر رہے تھے۔ وہاں اس وقت انتہائی دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب ایک وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرنے کے بعد ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’می لارڈ! اس اپیل میں ہم عدالت سے میرٹ پر انصاف چاہتے ہیں۔‘ کمشنر راولپنڈی نے شانِ بے نیازی سے جواب دیا، ’مگر یہ انصاف کی نہیں، ماما جی کی عدالت ہے۔‘
میانوالی کے روایتی کلچر کے ساتھ سختی سے بندھے سلیم ناصر نیازی 1994ء میں چیف آفیسر ضلع کونسل بہاولپور تعینات تھے۔ ایک ٹھیکیدار سے ناپسندیدہ طرزِ گفتگو کے باعث اپنے ہاتھ کو پستول نکالنے کے لیے میز کے دراز کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ مذکورہ ٹھیکیدار نے صورتحال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے وہاں سے راہِ فرار اختیار میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ سلیم ناصر نیازی ہاتھ سے پستول لہراتے اور زبان سے للکارتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے تھے اور وہ آگے آگے۔ کافی تگ و دو کے بعد ان کا سٹاف ان کو رام کرنے میں کامیاب ہو سکا۔ دوسرے دن تمام ٹھیکیدار ڈپٹی کمشنر جاوید اقبال اعوان سے ایک وفد کی شکل میں ملے اور داد رسی چاہی۔ انھوں نے دریافت کیا، ’کیا سلیم ناصر نیازی آپ سے رشوت طلب کرتا ہے؟‘ سب نے یک زبان ہو کر نفی میں جواب دیا۔ ’کیا سرکاری قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتا ہے؟‘ ڈپٹی کمشنر نے پوچھا۔ جواب ملا، ’بالکل نہیں۔‘ پھر سوال ہوا، ’کیا بلا وجہ ہر کسی کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھتا ہے؟‘ متفقہ جواب آیا، ’بالکل بھی نہیں۔‘ اس پر ڈپٹی کمشنر نے مسکراتے ہوئے کہا، ’تو پھر اتنی سی عیاشی کا حق تو سلیم ناصر کو ملنا چاہیے۔‘
٭…٭…٭