مولانا امین احسن اصلاحیؒ
مولانا امین احسن اصلاحی دار الاصلاح اعظم گڑھ یوپی سے پڑھے اور وہیں علوم قرآنی کے ماہر مولانا حمید الدین فراہی کے شاگرد ہوئے اور پھر وہیں پڑھانے لگے ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جب جماعت اسلامی کی داغ بیل ڈالنے کا عزم کیا تو اس قافلہ میں مولانا امین احسن اصلاحی ان کے دستِ راست بنے اور مولانا مودودی کے ساتھ ہی مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے لاہور آگئے۔ ان کی تحریر میں بلا کا زور تھا ، مقرر بھی وہ بہت اچھے تھے ۔ مولانا مودودی کے افکار پر جتنے بھی حملے ہوئے ان سب میں امیر جماعت اسلامی کا دفاع قلمی محاذ پر انھی نے کیا۔ وہ لاہور میں موچی دروازہ کی جلسہ گاہ میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کررہے تھے ، ان کی زبان سے ’ اسلام کہتا ہے‘کی جگہ ’اسلام فرماتا ہے‘ کے الفاظ نکل گئے، مولانا نے فوراً ہی ایک اور فقرہ ارشاد فرمایا، میں نے اسلام فرماتا ہے کی ترکیب اس لیے استعمال کی ہے کہ اس ملک میں اگر فرمانے کا کسی کو حق ہے تو وہ اسلام اور صرف اسلام ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحی جس طرح مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے دفاع میں پیش پیش رہے اسی طرح جب عام انتخابات میں براہِ راست حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا تو مولانا اصلاحی نے اس کی شدید مخالفت کی اور اسے مولانا مودودی کی بنیادی فکر اور فلسفہ کے بھی منافی سمجھا اور قرار دیا اور بالآخر اسی مسئلہ پر ان کے اختلاف کی شدت نے جماعت اسلامی سے علیحدگی کا راستہ دکھایا۔ جماعت سے الگ ہوجانے کے بعد ان کے ہم خیال رفقاء نے نئی جماعت تشکیل دینے ، کوئی علمی اور تعلیمی گاہ قائم کرنے اور کوئی اشاعتی ادارہ قائم کرنے کے لیے تجاویز دیں۔ ان تجاویز دینے والوں میں مولانا عبدالرحیم اشرف، ڈاکٹر اسرار احمد، شیخ سلطان احمد، مولانا عبدالجبار غازی، مولانا عبدالغفار حسن ، جناب سعید ملک، سردار اجمل خان لغاری ، جناب ارشاد احمد حقانی اور جناب مصطفی صادق کے اسماء گرامی خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ اس مقصد سے کئی ملاقاتیں لائل پور (اب فیصل آباد) میں بھی ہوئیں، مصطفی صادق صاحب سے رفاقت کے باعث راقم کو بھی ان گفتگوئوں میں شرکت کے مواقع ملتے رہے۔ جون 1959ء میں مولانا امین احسن اصلاحی نے لاہور سے ماہنامہ ’میثاق‘ کا اجرا ء کیا جس کے ناشر ہمارے دوست اور روز نامہ ’تسنیم‘ کے سابق اسسٹنٹ منیجر مولانا محی الدین سلفی تھے ۔ اکتوبر 1961ء میں مولانا اصلاحی نے ’ میثاق‘ بند کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ فردِ واحد کے لیے اس جریدہ کی مالی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانا آسان نہیں رہا تھا ۔ میں نے سات روزہ ’وفاق‘ لائل پور کی اشاعت 22 اکتوبر1961ء میں’لائل پور کی ڈائری‘ کے عنوان اور ’میثاق کی موت پر چند آنسو‘ کے ذیلی عنوان اور جیم الف کے قلمی نام سے ایک کالم لکھا تھا ، یہ کالم ذیل میں درج کیا جارہا ہے:
’ہمارے ملک کی وسیع صحافتی دنیا میں جہاں بیسیوں کثیر الاشاعت روز نامے اور لاتعداد ہفت روزے شائع ہوتے ہیں کسی ماہنامے کا اجراء یا بندش کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوتا جس سے ملکی صحافت میں ہلچل مچ جائے۔ جون 1959ء میں لاہور سے ایک ایسے ہی ماہنامے کا اجراء عمل میں آیا تھا جس کی اشاعت سے معروف صحافت میں کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہوا اور شاید ان اخبارات نے جن کی ملکی صحافت پر اجارہ داری ہے اس کا اجراء محسوس بھی نہ کیا ہو مگر یہ رسالہ چونکہ ایک مشن اور مقصد لے کر میدان عمل میں آیا تھا اس لیے بہت سے دلوں میں اس کے لیے بڑی قدرومنزلت تھی ۔ بر صغیرہندو پاکستان میں مولانا امین احسن اصلاحی ایک ممتاز اور سر برآوردہ عالم دین ہیں،آپ ہی نے ماہنامہ ’میثاق‘ جاری کیا تھا جو اب بد قسمتی سے 27 باقاعدہ اشاعتیں شائع کرنے کے بعد دم توڑ گیا ہے، اس کے باوجود کہ صحافی برادری میں کوئی آنکھ ’میثاق‘ کی مرگ پر آنسوئوں سے تر نہیں ہوئی میرا دل اس احساس سے بوجھل ہے کہ حضرت مولانا نے اپنی زندگی کے آخری دور میں ایک اعلیٰ وارفع مشن کو پروان چڑھانے کے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا وہ غیر موافق ثابت ہوا ۔ ’میثاق‘ کا اجراء اور بندش بذات خود کوئی ایسی اہمیت واقعی نہیں رکھتے۔ اصل اہمیت اور فوقیت تو اس مقصد کو ہے جسے پیش نظر رکھ کر ’میثاق‘ کا اجراء عمل میں آیا اور افسوس بھی اسی بات کا ہے کہ ’میثاق‘ کے بند ہوجانے سے اس مشن کی تکمیل کا کام ادھورا رہ جائے گا۔
مولانا امین احسن اصلاحی کے قوائے جسمانی مضمحل ہوچکے ہیں۔ مختلف عوارضات کا شکار ہونے کے باعث مولانا محترم کسی اہم ذمہ داری کو سنبھالنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ماضی قریب میں انھیں ذہنی طورپر بعض ایسے صدمات سہنے پڑے جنھوںنے ان کی رہی سہی قوتوں کو سلب کرلیا ۔ ’میثاق‘کی موت بھی مولانا محترم کی انھی پریشانیوں اور آلام کے سبب واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ دس بارہ برس کے دوران مولانا امین احسن اصلاحی نے ایک سرگرم دینی رہنما کی حیثیت سے کام کیا ہے ۔ ملک کے مختلف حصوں میں انکی پُرجوش خطابت نے ہزاروں لوگوں کو ان کا گرویدہ کیا اور اس طرح ان تک دین کی دعوت پہنچ پائی ۔ اسی طرح مولانا کے قلم سے متعدد کتابیں نکلی ہیں جن کا ایک ایک لفظ ان کی علمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ’میثاق‘ کا اجراء ان ذہنوں کو روح پرور اور صحت بخش غذا دینے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا جو جدید تہذیب اور نظریات کی شعبدہ بازیوں سے متاثر ہیں۔ اسکے ساتھ ہی سب سے اہم بات یہ تھی کہ مولانا اصلاحی کے ذہن میں اپنے استاد مولانا حمید الدین فراہی کے علوم و معارف کا وہ بیش بہا خزانہ محفوظ چلا آرہا ہے جو ابھی تک کاغذ پر منتقل نہیں ہوپایا۔ چونکہ مولانا کی گزشتہ زندگی دینی کاموں اورجماعتی ذمہ داریوں کے سبب بے حد مصروف گزری اس لیے وہ اس فریضہ کی ادائیگی کی طرف کماحقہ توجہ نہ دے سکے۔’میثاق‘ کے اجراء سے امید کی ایک کرن ضرور پیدا ہوئی تھی کہ دینی صحافت میں یہ نووارد مجلہ ایک ایسا کار نمایاں انجام دے پائے گا جو آئندہ نسلوں کی رہنمائی ورہبری کا صحیح حق ادا کرے گا مگر افسوس ہے کہ اسے گلستانِ حیات کی 27 بہاریں ہی دیکھنا نصیب ہوئیں اور مولانا محترم کو اس کی ادارتی ذمہ داریوں سے دستکش ہونا پڑا۔ ’میثاق‘ کی بندش سے ایک مرتبہ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا اصلاحی اشاعتِ دین کے اس فرض کو ادا کرنے کیلئے اب کون ساراستہ منتخب کریں گے۔(جاری)