غلام قادر روہیلہ (2)
سیالکوٹ سے ہمدم دیرینہ اورپرانے سیاسی کامریڈ عبداللہ سلیم ایڈووکیٹ کا پیغام آیاکہ غلام قادر روہیلہ کے باب کومنطقی حالات تک مکمل کیاجائے ۔سو حالات یہ تھے کہ شہزادوں اور بادشاہوں پر مظالم، قید وبند، قتل وغیرہ مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ یہ روش عام ہوچکی تھی کہ آنکھیں نکالنا لاکھ اذیت ناک سہی لیکن یہ بھی ایک ایسی سزا تھی جسے اس تاریک دور میںباقاعدہ ’جائز‘ تسلیم کرلیاگیا تھا لیکن ایک ظلم ایسا تھاجسے اس دور میں بھی کسی صورت میں جائز تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ خاندان شاہی کی خواتین کی بے عزتی کی جائے۔ خواتین کی عزت وآبرو کو ہندوستان کے سب حکمران مسلمان، ہندو، سکھ تسلیم کرتے تھے ۔حتیٰ کہ نادرشاہ اوراحمد شاہ ابدالی کے حملوں کے دوران بھی خاندان شاہی کی خواتین کی عزت وآبرو کی اچھی طرح حفاظت کی جاتی تھی اورکسی نے حرم شاہی کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں کی تھی ۔ اگرچہ اس دورانحطاط میں قوم کے اخلاق پست ہوگئے تھے لیکن اس قدر پست نہیں ہوئے تھے کہ ناموس شاہی پر ہاتھ ڈالنا برداشت کیاجاسکے ۔
ایک قدیم روایت تھی جس کا احترام کیاجاتا تھا۔وہ روایت یہ تھی کہ شاہی حرم کی خواتین پوری قوم کاناموس ہیں۔ اگر ان خواتین کی بے عزتی کی جائے تو دراصل بے عزتی ان افراد کی ہوتی ہے جواس جرم کے مرتکب ہوتے ہیں اوراس طرح پوری قوم بے عزت ہوجاتی ہے لیکن افسوس ہے کہ مغل شہنشاہ کی آنکھیں نکالنابھی کافی نہ سمجھا گیا اوراس کے بعد غلام قادر روہیلہ نے اخلاقی پستی کاوہ مظاہرہ کیا جس کی مثال مسلمان بادشاہوں کی تاریخ میں مشکل سے ملے گی ۔’ایک دن غلام قادرنے دوشہزادیوں کودربار میں پیش کرنے کاحکم دیاجن کے حسن وجمال کے بارے میں اس نے بہت تعریف سنی تھی۔ شہزادیاں مناسب لباس میں بہ نقاب حاضرہوئیں مگر اس نے شہزادیوں کوبرہنہ کیا اوران سے دست درازی شروع کردی لیکن اس سے پہلے کہ معاملہ آگے بڑھتا، مغل شہزادیوں کو ایک سکھ سردار نے اس ظالم سے بچایا۔ یہ سکھ سردار غلام قادر کا معاون ومددگار تھا۔ اس نے کہا کہ اگرشہزادیوں پر دست درازی کی گئی تو میں اپنی فوج لے کردہلی سے چلاجائوں گا۔
اس سے آپ نے اندازہ کرلیاہوگا کہ اٹھارویں صدی میں مسلمان جنگجوئوں کے مظالم اوران کے اخلاق کی پستی کس حد کوپہنچ چکی تھی۔ ایسی صورت میں و ہی ہوسکتا تھا جوہوا۔ تاریخ نے کروٹ لی اورحرکت میں آگئی۔ دوسوسال کی مغلیہ سلطنت کاتخت وتاج متزلزل ہوگیا۔ مغل شہنشاہ جس نے عمربھر کوششیںکی تھیں کہ انگریزوں کا مقابلہ کرے، آخرکار اپنے ہم وطنوں اورہم مذہبوں کی غداری اورظلم کا شکار ہوکر مجبورہوگیا کہ انگریزوں کی پناہ میں آجائے تاکہ اس طرح خانوادۂ تیموری کچھ عرصے کے لیے بے عزتی سے بچ جائے اورشاہی حرم کی خواتین کی آبرو محفوظ رہے۔ چنانچہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انگریزفوجوں کے کمانڈر جنرل لیک کا، حکم شاہی کے تحت ، دلی میں استقبال کیاگیا۔ جب جنرل لیک دربارشاہی میں حاضرہواتوایوانات شاہی میں لوگوں کاہجوم تھا۔ لوگ یہ دیکھنے کے لیے بے تاب تھے کیونکہ ان کے شہنشاہ کوبے عزتی اورقیدوبند سے رہائی دلائی جارہی تھی۔
آخرکار کمانڈرانچیف کو دربارشاہی میں پیش کیاگیا۔ اس (لارڈلیک) نے دیکھا کہ بدقسمت بزرگ شہنشاہ آلام ضعیفی سے نڈھال ہوچکا تھا۔ اس کا اقتدار ختم ہوچکا تھا۔ وہ مفلس اورنابینا ہوچکا تھااوروہ ایک شکستہ شامیانے کے تلے بیٹھا ہواتھا جواس کی عظمت رفتہ کی یاددلارہا تھا اور زبانِ حال سے ان مصائب پر نوحہ کناں تھا جو امتدادِ زمانہ سے آشکار اہوچکے تھے۔ اوراس طرح مغل شہنشاہ شاہ عالم کی آنکھیں بے نور ہونے کے بعد خانوادۂ تیموری کی عظمت کا ٹمٹماتا ہواچراغ بھی گل ہوگیا۔ اس کے بعدتک شاہانِ مغلیہ بے پناہ تاریکی میں اپنی عظمت رفتہ کی نوحہ خوانی کے لیے باقی رہ گئے۔ سلطنت مغلیہ کے زوال کے اسباب بہت سے بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں میں صرف ایک کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کراناچاہتا ہوں۔ سلطنت مغلیہ کادورہندوستان ہی میں نہیں بلکہ تاریخ عالم کے درخشاں ادوار میں شمار ہوتا تھا۔دربارمغلیہ کاجاہ وجلال اورتزک واحتشام دنیا کی تاریخ اورادب کا حصہ بن چکا تھا۔ مغربی مؤرخین نے اعتراف کیا ہے کہ مغلیہ دربار دہلی کے مقابلے میں شہنشاہ فرانس کا دربار پیرس کم حقیقت تھا۔ہمارے مغل بادشاہوں کے زمانے میں بڑے بڑے محل، مسجد یں، مقبرے تعمیر ہوئے جن کی شان وشوکت کی دنیا معترف ہے لیکن کیاہمارے اس سنہری دورمیں کوئی یونیورسٹی بھی قائم ہوئی؟ یاعوام کی اعلیٰ تعلیم کے لیے کوئی سکیم مرتب ہوئی؟ کوئی ایسا عالم بھی پیدا ہواجس کے افکارنے دنیا کومتاثرکیاہو؟ اکبر نے نورتن کاادارہ قائم کیاتھا لیکن وہ رتنوں کے مرنے کے بعد ختم ہوگیا۔ کہیں کہیں تاریخی ملفوظات لکھے گئے جواپنی جگہ نہایت وقیع ہیں لیکن یہ یادرکھنا چاہیے کہ سولھویں، سترھویں اوراٹھارویںصدی عیسوی میں یورپ اپنے ہزارسالہ خواب سے جاگ چکا تھا اور وہاں احیائے علوم اورنشاۃ الثانیہ کی تحریکیں ابھر چکی تھیں اورعلوم وفنون عہد آفریں ترقی کرچکے تھے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس بیداری کاکوئی قابل ذکر اثر ہماری قوم میں نہیں ملتا۔ مغلیہ دور اور اس سے پہلے بھی مسلمانوں نے علم وفکر کی طرف سے توجہ ہٹالی تھی۔ دو تین سوسال میں کوئی ایساعظیم علمی ادارہ وجود میں نہیں آیاجو قوم میں صحیح نظر وبصیرت کی تخلیق کرتا۔ سنجیدہ فکر وتحقیق کی حوصلہ افزائی شاذہی کی گئی بلکہ اکثر اہل علم کوحقارت سے دیکھا گیا اوربعض اوقات ان کو ذہنی اورجسمانی تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ ایسی روایات قائم ہونے کے بعد کیسے توقع کی جاسکتی تھی کہ قوم برسراقتداررہتی۔ قومیں اداروں سے زندہ رہتی ہیں۔ ادارے علم وفکر کی روایات سے قائم ہوتے ہیں اورتنگ نظری اورکم نگاہی سے ختم ہوجاتے ہیں اوران کے ساتھ قومیں بھی۔ (ختم شد)