• news

مذاکرات کریں ، اداروں کو جلایا جارہا آئین ہی نہیں دیکھنا، ایسے حالات میں الیکشن کون مانے گا ، چیف جسٹس 


اسلام آباد(خصوصی رپورٹر+ وقائع نگار) سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات بحال کرنے کی تجویز دیدی۔ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر ہونے والی نظرثانی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے صرف آئین نہیں حالات کو بھی دیکھنا ہے۔ جس انداز میں سیاسی قوتیں کام کر رہی ہیں یہ درست نہیں۔ عدالت نے آئین کے ساتھ ساتھ حالات کو بھی دیکھنا ہے۔ ایسے حالات میں انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو نتائج کون تسلیم کرے گا۔ لوگ آج دیواریں پھلانگ رہے تھے لیکن حکومت ناکام نظر آئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی۔ حکومت اور اپوزیشن سے کہتا ہوں اعلیٰ اخلاقی معیار خود تلاش کریں۔ آئین پر عملدرآمد میرا فرض ہے جو ادا کرتا رہوں گا۔ باہر جو ماحول ہے اس میں آئین پر عملدرآمد کون کرائے گا۔ کسی ایک فریق کا اخلاقی معیار ہوتا تو دوسرے کو الزام دیتے۔ تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ عمران خان کو جس طرح گرفتار کیا گیا اس سے خوف پھیلا، گرفتاریاں جاری ہیں، مذاکرات میں تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ تحریک انصاف کی پوری قیادت گرفتار ہے، ایسے ماحول میں کیا مذاکرات ہوسکتے ہیں؟۔ اب مذاکرات نہیں صرف آئین پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر اور اٹارنی جنرل سپریم کورٹ بار میں بیٹھ کر بات چیت کا آغاز کریں اور اٹارنی جنرل پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کی رہائی پر غور کریں۔ سیاسی معاملے پر کچھ علم ہے نہ ہی جاننا چاہتے ہیں۔ عدالت کی دلچسپی سسٹم کے چلتے رہنے میں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ اور وقت مل جاتا تو مسئلہ حل ہوجاتا، گزشتہ ہفتے جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ بہت کوشش کرکے فریقین کو میز پر لائے تھے۔ فریقین میں کافی حد تک اتفاق بھی ہوچکا تھا۔ بعض اوقات حالات سیاسی قیادت کے قابو میں بھی نہیں رہتے، غلطی کی اصلاح عدالت کرچکی ہے۔ اس سے قبل سیکرٹری سپریم کورٹ بار بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ سیکرٹری بارکا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ بار اور وکلا عدالت کے ساتھ ہیں، عدلیہ کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پہلے الیکشن کمیشن کا مو¿قف تھا کہ وسائل دیں انتخابات کرا دیں گے مگر اب الیکشن کمیشن نے پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پہلے یہ مو¿قف اپنایا ہی نہیں تھا۔ مناسب ہوگایہ نکات کسی اور کو اٹھانے دیں۔ الیکشن کمیشن کی درخواست میں اچھے نکات ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہاکہ وفاقی حکومت یہ نکتہ اٹھا سکتی تھی لیکن نظرثانی دائر ہی نہیں کی گئی۔ عدالتی دائرہ اختیار کا نکتہ بھی الیکشن کمیشن نے نہیں اٹھایا تھا۔ وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے موقف دیا کہ نظر ثانی کا دائرہ محدود نہیں ہوتا اور آئینی مقدمات میں دائرہ اختیار محدود نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی مدنظر رکھیں کہ نظرثانی میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے۔ وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ 14 مئی گزر چکا ہے اور آئین کا انتقال ہوچکا ہے جبکہ نگراں حکومتیں اب غیر آئینی ہوچکی ہیں۔ عدالت اپنے فیصلے پر عمل کروائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معیشت کا پہیہ رک چکا ہے، موٹروے پر کل سفر کیا تو وہاں لوڈنگ والی گاڑیاں نظر نہیں آئیں، کاروبار رک چکا ہے اسی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے اور دونوں اطراف سے پرتشدد کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس ماحول میں لوگ شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ سیاست کو عدالت سے الگ رکھ کر دلائل دوں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسرے فریقین سے بھی سیاست کو باہر رکھنے کی توقع ہے جبکہ عدالت نے آئین کے ساتھ حالات کو بھی دیکھنا ہے، جنگ کے حالات میں انتخابات ہونے پر آئین خاموش ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل ایک اور اہم معاملہ ہے، جلدی تب کرتے جب معلوم ہوتا الیکشن کا وقت آگیا ہے اور جس انداز میں سیاسی قوتیں کام کر رہی ہیں یہ درست نہیں، لوگ جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، ادارے خطرات اور دھمکیوں کی زد میں ہیں، لوگوں کی نجی اور سرکاری املاک کا نقصان ہو رہا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت منگل تک ملتوی کرتے ہوئے پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو نوٹس جاری کردیے۔ پنجاب اور کے پی کے گورنرز کو بھی نوٹس جاری کردیے گئے جبکہ منگل تک اٹارنی جنرل سے بھی جواب مانگ لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ باہر کے حالات دیکھ رہے ہیں اس لیے سماعت جلدی نہیں رکھنا چاہتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہی بنیادی چیز ہیں، بال اب حکومت اور اپوزیشن کے کورٹ میں ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ باہر جا کر دیکھیں کیا ہو رہا ہے، امن و امان کے ماحول کو برقرار رکھنے میں حصہ ڈالیں، مشکل وقت میں صبر کرنا ہوتا نہ کہ جھگڑا۔ لوگ آج دیواریں پھلانگ رہے تھے لیکن حکومت ناکام نظر آئی۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ہم اپنا فرض ادا کرتے رہیں اور اداروں کا احترام کرنا ہوگا۔ لوگ گولیوں سے زخمی ہوئے، اس مسئلے کو حل کیوں نہیں کیا گیا۔ جمہوریت کی بنیاد انتخابات ہیں۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی۔ اگلے ہفتے تک تیاری کرکے آئیں۔ باہر جو ہو رہا ہے اس پر بھی نظر ہے۔ اس لیے جلدی سماعت نہیں رکھنا چاہتے۔ عدالت فریقین کا کنڈکٹ دیکھ کر ہی ریلیف دیتی ہے۔ سپریم کورٹ عوام کے حقوق کے دفاع کیلئے موجود ہے۔

ای پیپر-دی نیشن