ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی !
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری پر 9 مئی 2023 ء کو پی ٹی آئی کے رہنماوں اور کارکنوں نے جس بدترین ردعمل کا اظہار کیا ہے ، اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پوری قوم کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے ترجمان نے بھی اس دن کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔ اس ردعمل سے انہوں نے ثابت کیا کہ وہ پاکستان کے آئین ، قوانین اور اداروں کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے ریاست پاکستان سے کھلی بغاوت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے کور کمانڈر لاہور کے گھر میں گھس کر حملہ کیا۔ انہوں نے فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز ( جی ایچ کیو ) پر حملہ کیا۔ انہوں نے پاک فوج کے شہداء کی یادگار پر حملہ کیا۔ انہوں نے اس طیارے کو جلا دیا ، جس کے ذریعہ ایم ایم عالم نے 1965 ء کی جنگ میں کئی بھارتی طیاروں کو مار گرایا تھا۔ انہوں نے میانوالی اور دیگر شہروں میں فوجی تنصیبات پر حملے کئے۔ اس طرح پی ٹی آئی والوں نے پاکستان کے دفاع پر حملہ کیا۔ صرف یہی نہیں ، پی ٹی آئی مظاہرین نے کئی سرکاری اور نجی عمارتوں بشمول ریڈیو پاکستان پشاور کو آگ لگائی۔ انہوں نے عام لوگوں کی کاریں اور موٹر سائیکلیں تک جلا دیں۔ جو کچھ ان کے سامنے آیا، اسے انہوں نے نذر آتش کر دیا۔ پر تشدد کارروائیوں سے انہوں نے سڑکیں بند کرکے بچوں ، بوڑھوں ، خواتین اور بیماروں سمیت شہریوں کو عذاب میں مبتلا کئے رکھا۔
پی ٹی آئی کے رہنماوں اور کارکنوں کو یہ غصہ صرف اس بات پر تھا کہ عمران خان کو القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں کیوں گرفتار کیا گیا۔ پر تشدد مظاہرین نے اپنے لیڈر عمران خان کی اس بات کی نفی کر دی کہ قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے ذریعہ دنیا کو یہ باور کرایا کہ عمران خان کے لیے کوئی قانون نہیں ہے ، چاہے وہ کرپشن کریں یا ریاست کے امن عامہ کو تباہ کریں۔ وہ آئین اور قانون سے بالاتر ہیں۔ پر تشدد مظاہرین نے ریاست کے خلاف اعلان جنگ کیا اور ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی۔
ماضی میں بھی کئی سیاست دانوں کی گرفتاریاں ہوئیں اور انہیں سزائیں بھی ہوئیں لیکن کبھی کسی سیاسی جماعت نے ریاست کے خلاف اعلان نہیں کیا اور نہ ہی پاکستان کے دفاع پر حملہ کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت کی طرف سے پھانسی کی سزا دی گئی۔ وہ پاکستان کے انتہائی مقبول سیاست دان تھے۔ ان کی شہادت پر لاہور اور دیگر جگہوں پر پیپلز پارٹی کے جیالوں نے غم و غصے میں اپنے آپ کو آگ لگا دی لیکن ریاستی تنصیبات یا نجی یا سرکاری املاک پر حملے نہیں کئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا یہ کہنا درست ہے کہ 10 اپریل 1986ء کو جب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو جلا وطنی ترک کرکے وطن واپس پہنچیں تو کم از کم 30 لاکھ افراد نے اس کا لاہور میں استقبال کیا تھا۔ اتنا بڑا اجتماع آج تک پاکستان کی تاریخ میں کوئی نہیں کر سکا تھا۔ شہید بی بی اور پیپلز پارٹی کے جیالوں کو علم تھا کہ شہید بھٹو کا قاتل ایوان صدر اسلام آباد میں بیٹھا ہے۔ اسلا م آباد لاہور سے زیادہ دور نہیں تھا۔ شہید بی بی اگر چاہتیں تو عوام کے اتنے بڑے جم غفیر کے ساتھ اسلام آباد جا سکتی تھیں۔ ضیاء الحق صرف شہید بھٹو کا قاتل نہیں تھا بلکہ وہ شہید شاہ نواز بھٹو کا قاتل بھی تھا۔ اس نے کئی سیاسی کارکنوں کو تختہ دار پر لٹکایا ، کئی کارکنوں کو کوڑے مارے ، بے شمار کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا۔
شہید بی بی کو سکھر جیل میں سخت گرمی میں قید تنہائی میں رکھا۔ ضیاء الحق نے مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو پر پولیس کے ذریعہ لاٹھیاں برسائیں اور ان کا سر پھاڑ دیا۔ ضیاء الحق کے مظالم کی طویل داستانیں تھیں۔ اگر 30 لاکھ کا یہ جم غفیر اسلام آباد چلا جاتا تو اس کا انجام کیا ہوتا۔ لیکن شہید بی بی نے کہا کہ ہم انتقام نہیں چاہتے۔ جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے۔
پھر بھٹو شہید بے نظیر بھٹو نے مدتوں تک مقدمات کا سامنا کیا اور انتہائی نامساعد حالات میں عدالتوں میں پیش ہوتی رہیں۔ ایک دن میں کئی شہروں کی عدالتوں میں ان کی پیشیاں ہوتی تھیں۔ انہیں مختلف مقدمات میں گرفتار بھی کیا گیا۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے کارکنوں کو فوجی اور دیگر ریاستی تنصیبات پر حملے کرنے کے لیے نہیں اکسایا۔ خود محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 ء کو دہشت گردی کے ایک واقعہ میں شہید کر دیا گیا۔ اس عظیم سانحہ پر بھی پیپلز پارٹی کی قیادت نے لوگوں کو صبر کی تلقین کی اور '' جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ ' ' کا نعرہ لگایا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے کندھوں پر اپنی شہید والدہ کی لاش اٹھائی لیکن لوگوں کو ریاست کے خلاف نہیں اکسایا۔ بی بی کی شہادت پر جب لوگوں کی طرف سے '' پاکستان نہ کھپے '' کے نعرے لگ رہے تھے ، اس پر صدر آصف علی زرداری نے '' پاکستان کھپے '' کا نعرہ دیا۔ خود صدر آصف علی زرداری ایسے مقدمات میں 11 سال تک جیل میں رہے ، جن میں سے ایک مقدمہ بھی ان کے خلاف ثابت نہیں ہوا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کو بھی کئی جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا لیکن وہ ہزارں دفعہ عدالتوں میں پیش ہوئے اور اپنے خلاف ہونے والے سیاسی انتقام پر کارکنوں کو احتجاج ، توڑ پھوڑ یا تشدد کے لیے نہیں اکسایا۔ مقدمات سے بریت کے لیے انہوں نے قانون کا تھکا دینے والا راستہ اختیار کیا۔
صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں ، دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن بھی مختلف مقدمات میں گرفتار ہوتے رہے۔ انہوں نے بھی ریاست کے خلاف بغاوت کا یہ راستہ اختیار نہیں کیا ، جو پی ٹی آئی نے اختیار کیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کئی مرتبہ گرفتار ہوئے اور مقدمات میں عدالتوں کے روبرو پیش ہوتے رہے۔ ان کے سامنے ان کی صاحبزادی مریم نواز کو گرفتار کیا گیا لیکن انہوں نے صبر کا مظاہرہ کیا۔ موجودہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کینسر کے مریض ہیں۔ وہ بھی بیماری کی حالت میں جیل میں رہے اور مختلف مقدمات کا سامنا کرتے رہے۔ کسی نے بھی فوجی اور دیگر سرکاری تنصیاب پر حملے کرنے یا سرکاری یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور پورے ملک کے امن کو تباہ کرنے کی کال نہیں دی۔
جب عمران خان حکومت میں تھے تو وہ نیب کو سیاسی مخالفین کے خلاف بے دریغ استعمال کرتے تھے اور سیاسی مخالفین کی گرفتاری پر خوش ہوتے تھے۔ اگر چیئرمین نیب ان کے غلط احکامات نہیں مانتے تھے تو ایک خاتون کے ساتھ ان کی گفتگو کی ویڈیو بنا کر انہیں بلیک میل کیا گیا۔ عمران خان نے سیاسی انتقام لینے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا اور اسے قانون کی عمل داری سے تعبیر کیا۔ اب اگر انہیں 60 ارب روپے کی کرپشن کے کیس میں قانونی شواہد کے مطابق گرفتار کیا گیا تو انہوں نے پورے ملک میں آگ لگوادی۔ یہاں تک کہ دفاعی اداروں پر بھی حملے کئے۔ ہندوستان کا میڈیا عمران خان کو اپنا ہیرو قرار دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ عمران خان نے وہ کام کیا ہے ، جو بھارت 75 سالوں سے نہیں کر سکا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان نے ہر '' ریڈ لائن '' عبور کر لی ہے۔ عمران خان نے ریاست کی عمل داری کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے اور وہ نام نہاد عوامی مقبولیت کا جواز بنا کر دہشت گردی کے ذریعہ حکومت اور سیاست پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو حکومت ریاست کی عمل داری قائم کر سکتی ہے۔ عدلیہ کے کچھ معزز جج صاحبان عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنماوں کو غیر معمولی ریلیف دے کر حکومت کو مفلوج کر رہے ہیں۔ ایک شخص کی انا کی خاطر ریاست کی عمل داری کو داو پر لگایا جائے گا تو کسی کو اندازہ ہے کہ اس ملک کا کیا ہو گا ؟ 9 مئی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ملک کے مقتدر حلقوں سے یہ سوال کرتا ہے کہ آئین اور قانون کے اس قاتل عمران خان کے ساتھ کیا سلوک ہو۔ جو عدالت کے کہنے کے باوجود دہشت گردی کے واقعات کی مذمت نہیں کر رہا اور یہ کہہ رہا ہے کہ ایسے واقعات پھر ہوں گے۔ حالانکہ ان کے اپنے ساتھی ان واقعات کی نہ صرف مذمت کر رہے ہیں بلکہ اسے چھوڑ کر بھی جا رہے ہیں۔ بقول غالب
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی